میرے سامنے لیپ ٹاپ کی سکرین پر پانچ اردو اور انگریزی اخباروں کی سائٹس پانچ ٹیبز میں کھلی
ہوئی ہیں-ہر اخبار میں چیختی چنگھاڑتی ایک ہی شہ سرخی فرنٹ پیج پر میرا منہ چڑا رہی ہے“فیصل آباد میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے طویل دورانیہ کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر پولیس کا بہیمانہ تشدد-پولیس گھروں میں داخل ،بچوں اور عورتوں کو بھی نہ چھوڑا”
یہ ریاست کے ایک ادارے کا وہ چہرہ ہے جو ہمارے سامنے اس وقت آتا ہے جب حکمران طبقات اور عوام کے درمیان کشمکش تیز ہورہی ہو اور عوام مسائل سے تنگ آچکی ہو-ایسے میں جب عوام باہر نکل کر احتجاج کرتی ہے اور اپنا حق مانگنے نکلتی ہے تو پھر ریاست کے آہنی ہاتھ حرکت میں آتے ہیں اور سیکورٹی کے ادارے عوام پر تشدد کا ہر وہ حربہ آزماتے ہیں جس سے عوام کے غیظ و غضب سے حاکم طبقات کو بچایا جاسکتا ہو-
فیصل آباد میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے تنگ آئے ہوئے عوام نے احتجاج کی راہ اس لیے اختیار کی ہے کہ ایک طرف تو بجلی کا محکمہ ان سے نہ صرف بجلی کی قیمت بشمول بھاری ٹیکسوں کے وصول کررہا ہے بلکہ وہ بجلی چوری اور لائن لاسز کی مد میں ہونے والے نقصانات ان صارفوں سے پورے کررہا ہے جو ایمانداری سے بجلی کے بل ادا کرتے ہیں-پھر یہ عام اور غریب صارف جن علاقوں میں رہتے ہیں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بھی وہیں پر سب سے زیادہ ہے-جبکہ گذشتہ پانچ سالوں میں بجلی کے یونٹس کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ موثر باماضی جیسی قیود کے ساتھ کیا جارہا ہے-
بجلی کی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ شارٹ فال سے کیوں زیادہ ہے ؟یہ سوال سپریم کورٹ نے بھی کل کیا تھا-پتہ یہ چلتا ہے کہ کچھ کیٹیگریز ایسی ہیں کہ جن کو بجلی بلا تعطل فراہم کی جاتی ہے اور ان میں زیادہ حصّہ اشراف اور چند طاقت ور اداروں اور شخصیات کا ہے-اس لیے یکساں اور اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے نفاذ کی پالیسی محض ایک اعلان کی حد تک رہ گئی ہے-
پھر بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں سے معاہدے اس طرح سے کئے گئے ہیں کہ وہ اپنی صلاحیت سے جتنی کم بجلی پیدا کرتے ہیں ان کو اتنا ہی زیادہ فائدہ اور نفع ہوتا ہے-گذشتہ حکومت نے انرجی سیکٹر پر سرکلر ڈیٹ کی مد میں پانچ سالوں میں 14 سو ارب روپے خرچ کئے-جبکہ موجودہ حکومت دو ماہ میں 500 ارب روپے کا گردشی قرض اتارنے کے دعوے کررہی ہے-یہ سارا پیسہ حکومت نے دو طرح سے حاصل کیا-سابق حکومت نے آئی ایم ایف سے اور مقامی نجی بینکوں ،سٹیٹ بینک سے قرضے لیے اور دوسرا ٹیکسوں کی شرح میں بے تحاشا اضافہ کرکے اکٹھا کیا-موجودہ حکومت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے واضح کرڈالا ہے کہ وہ ایک تو آئی ایم ایف سے رجوع کریں گے-دوسرا سبسڈیز میں بہت زیادہ کمی لیکر آئیں گے-حکومت سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافہ کرنے کی کوشش کرے گی-آئی ایم ایف سے رجوع اگر کیا گیا تو آئی ایم ایف حکومت سے سخت مانٹیری پالیسی کے نفاز اور پاکستان کے انرجی سیکٹر سمیٹ پبلک سیکٹر کے اہم اداروں کی نجکاری پر زور دے گی-اس سے ہم اندازا لگا سکتے ہیں کہ حکومت کس طرح سے اشراف کی نااہلی اور بدانتظامی سے پیدا ہونے والے بحران کو ختم کرنے کے لیے غریب اور مڈل کلاس کے ناتواں کندھوں پر مزید بوجھ ڈالنا چاہتی ہے-
عوام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ پہلے 1400 ارب دئے اور اب 500 ارب رینے ہیں اس سے توانائی کا شارٹ فال کیسے ختم ہوگا؟کیونکہ پانی و بجلی کے وفاقی وزیر خواجہ آصف کہتے ہیں کہ بجلی کا بحران ختم ہونے میں کئی سال لگیں گے-کچھ ایسی باتیں دیگر وفاقی وزراء بھی کررہے تھے-گویا عوام کے پیسوں کو بجلی اور گیس کی کمپنیوں اور بجلی پیدا کرنے والوں کی جیبوں میں یونہی ڈالا جاتا رہے گا اور عوام یونہی بجلی کو ترستے رہیں گے-
اس پر اگر انہوں نے کوئی احتجاج کیا تو حشر فیصل آباد کے مکینوں کی طرح ہوگا-گویا جب سرمایہ دار طبقات عوام کو ڈیلیور کرنے اور ریفارم کرنے سے قاصر رہیں تو پھر وہ تشدد کا راستہ اختیار کرتے ہیں-
حکمران طبقات جانتے ہیں کہ پاکستان کی معشیت کا بحران کس قدر گھمبیر ہوچکا ہے-اس بحران سے نکلنے کا ان حاکم طبقات کے پاس ایک ہی راستہ ہوا کرتا ہے –اور وہ ہے تشدد ،دھونس اور جبر-خوف و ہراس بھی ان ہی دنوں پھیلایا جاتا ہے-اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ خوف ہراس پھیلانے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے-
جو کچھ فیصلہ آباد میں ہوا وہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا-گزرے پانچ سالوں میں پنجاب کے اندر حکمرانوں نے ینگ ڈاکٹرز،اساتذہ،لیڈی ہیلتھ ورکرز،ٹیوٹا کے ملازمیں،کلرکس،نرسوں اور این آیچ سی ڈی کے ملازمین کے اختجاج پر بھی اتنا ہی درشت رویہ اپنایا تھا-اشتہاری مہم چلاکر حقوق مانگنے والوں کو بدنام کیا گیا تھا-انسداد دھشت گردی کے پرچے بھی درج ہوئے تھے-سندھ میں پروفیسرز کے احتجاج کو،کے ای ایس سی کے ملازمین کے احتجاج کو اسی طرح سے کچلا گیا تھا-ہم نے گورنر ہاؤس کے سامنے پشاور میں احتجاج کرنے والوں کی یہی درگت بنتے دیکھی تھی-گویا ریاست کی مشینری عوام کے مسائل کو ایک تو اور گھمبیر بنائے اور جب اس نااہلی پر احتجاج ہو تو وہ کیل کانٹے سے لیس ہوکر عوام پر چڑھ دوڑے-
ریاست بحران کے دنوں میں اور زیادہ خوف ناک ہوجاتی ہے اور ایسے ہی دنوں میں ہمیں کارل مارکس کی بات سچ لگنے لگتی ہے کہ ریاست حکمران طبقات کے مفادات کی حفاظت کرنے والا متشدد آلہ ہوتی ہے اور اس ریاست کے انتظامی اور قانونی ادارے سوائے حکمران طبقات سے محکوموں کو دور رکھنے کے اور کوئی کام نہیں کرتے-ریاست کا اصل چہرہ کہتے ہیں بحران کے دنوں میں یا وبال کے دنوں میں سامنے آجاتا ہے-اور ایسے ہی وقت میں خوف کی پرچھائیوں کی حکومت بھی بننے لگتی ہے-
ایسے میں مرے کو مارے شاہ مدار والا معاملہ زیادہ ہوتا ہے-تو ہمارے جو نئے شاہ مدار آئے ہیں وہ بھی مرے کو مارنے والی پالیسی پر عمل پیرا ہین-اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ بدھ والے دن جو بجٹ اسحاق ڈار نے پیش کیا اس میں انہوں نے ایک طرف تو تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا-دوسری طرف 40 ہزار ماہانہ کی آمدنی والوں پر 7 ہزار کا ٹیکس بھی لگا دیا-میں اس بجٹ کے امیر پرست ہونے پر تو ایک خصوصی کالم الگ سے لکھوں کا-لیکن یہاں فقط یہ کہنا ہے کہ اسحاق ڈار صاحب نے بجٹ سے ایک روز قبل پاکستان کا معاشی سروے پیش کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا تھا کہ افراط زر مین مسلسل اضافہ اور اس کے ساتھ مہنگاہی میں بھی اضافہ زوروں پر ہے-اس لحاظ سے تنخواہوں میں اضافہ ہونا چاہئیے تھا لیکن ایسا نہیں کیا کیا-40 ہزار کی آمدن رکھنے والے کو ٹیکس لگانا سفید پوش طبقے پر ایک اور ضرب لگانا ہے-اسحاق ڈار صاحب سے مجھے اس لیے بھی خوف آتا ہے کہ یہ صاحب پاکستان کے عام آدمی کے لیے مشکلات میں اضافہ کرنے والی پالیسیاں بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے-ان کے کہنے پر 1997 میں مالیاتی ایمرجنسی لگائی گئی تھی-اور فارن اکاؤنٹس منجمد کئے گئے تھے-پھر انہوں نے گزشتہ حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانے اور بجلی سمیت دیگر سبسڈیز کو ختم کرنے کا کہا تھا-اب بھی یہ سبسڈیز کے خاتمے پر زور دے رہے ہیں-ان کی پالیسیوں میں عام آدمی پر بوجھ ڈالنے کی کوشش زیادہ نظر آتی ہے-
میں خوف کی جن پرچھائیوں کی بات کررہا ہوں وہ دو طرح کی ہیں-ایک تو مسلم لیگ نواز کا یہ ریکارڈ رہا ہے کہ جب بھی وہ برسراقتدار آتی ہے تو وہ پولیس ،رینجرز،اور سول ایڈمنسٹریشن پر بہت ویادہ انحصار کرتی ہے اور اس میں ڈکٹیٹر شپ کا شائبہ ہونے لگتا ہے-اس دوران پولیس گردی کے واقعات بہت رونماء ہوتے ہیں-ماورائے عدالت قتل بھی زیادہ ہونے لگتے ہین-جبکہ شہباز شریف کی جانب سے جن پولیس افسران کو قربت دی جاتی ہے ان کے نام جعلی ان کاؤنٹرز میں بہت آنے لگتے ہیں-دوسری خوف کی پرچھائیں یہ ہے کہ مسلم لیگ نواز کی حکومت کے آتے ہی سرکاری اداروں کی نیلامی اور سرکاری ملازمین کی چھانٹی کا عمل بے رحمی سے شروع ہوجاتا ہے-ان کی جانب سے ملازمین کی مستقلی بھی آسانی سے نہیں ہوتی-شہباز شریف نے پچھلے پانچ سالوں میں ملازمین کی مستقلی کی جو پالیسی اپنائی اس میں کئی ایسی قانونی شقیں رکھ دی گئیں جو عملی طور پر ہزاروں کنٹریکٹ ملازمین کے مستقل ہونے میں بڑی روکارٹ ثابت ہوئی-
مجھے نواز شریف اور شہباز شریف کی جانب سے ہر وقت ترکی کے مرد آہن طیب اردوگان کو اپنا ماڈل قرار دیتے رہنے کے عمل سے خوف آتا رہتا ہے-اگرچہ شہباز شریف کے رائے ونڈ روڈ کی توسیع اور ٹھوکر نیاز بیگ سے ڈیفنس تک روڈ کی تعمیر اور پھر فلائی اوورز کے ساتھ میٹرو بس پروجیکٹ نے لاہور کی ایکولاجیکل تباہی میں اور اس کی کلچرل شناخت کو تباہ کرنے میں وہی کردار ادا کیا جو اردوگان نے استنبول میں کیا-مگر شائد پاکستانی سماج میں ماحول دوست اور ثقافت دوست ترقی کے تصورات سے محبت ہونے میں ابھی وقت لگے گا تو یہاں کی عوام نے اپن شہروں کی ایکولوجی اور ثقافت کو بچانے کے لیے تقسیم اسکوائر پر غازی پارک بچاؤ جیسی کوئی تحریک نہیں چلائی-مگر ایسی تحریک کو مستقبل قریب میں خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا-مگر خدشہ یہ ہے کہ شریف براداران کا ایسے کسی بھی اجتجاج پر رد عمل اردوگان کے غیر انسانی رد عمل سے کہیں زیادہ ہوسکتا ہے-
میں خوف کی پرچھائیوں کا جو زکر کررہا ہوں اس میں ایک اور خوف کی پرچھائیں کا زکر بہت ضروری ہے-یہ خوف کی پرچھائیں وہ ہے جس کا جنم میاں محمد نواز شریف کے آل سعود کے ساتھ بندھن کی وجہ سے ہوا ہے-یہ پرچھائیں پاکستان کے لبرل،اعتدال پسند اور ترقی پسند حلقوں پر ہمیشہ سایہ فگن ہوتی رہی ہے-ماضی میں اس پرچھائیں نے پاکستان کے ٹاپ کے صحافیوں،کالم نگاروں کو تنگ کئے رکھا –اور اب یہ پرچھائیں پاکستان کے اندر سوشل میڈیا کو پابند سلاسل کرنے کے درپے ہے-میاں محمد نواز شریف نے جیسے ہی حلف اٹھایا تو انہوں نے پی ٹی اے کو ہدائت کی کہ وہ ایل یو بی پی نامی ایک سوشل نیٹ ورک سائٹ کو بند کردیں اور اس پر ایسے لنکس بین کرنے کی کوشش بھی کی گئی جن میں نجم سیٹھی کے دھشت گردوں سے تعلقات بارے پردہ اٹھایا گیا تھا-اور ایسے لنکس جس سے آل سعود کی جانب سے پاکستان میں فرقہ پرستانہ خون ریزی کو پروان چڑھانے کی کوششوں کو بے نقاب کیا گیا تھا اور نواز شریف کے آل سعود سے تعلقات کا پول بھی کھولا گیا تھا-ایل یو بی پی ایک ایسی نیوز و بلاگ سائٹ ہے جس نے پاکستان کے اندر ڈیپ سٹیٹ تھیوری اور سیکورٹی سٹیٹ کے خالقوں کو بے نقاب کرنے اور اسٹبلشمنٹ کی عوام دشمنی اور مذھبی و نسلی بنیادوں پر ہونے والی عسکریت پسندی کو بے نقاب کرنے میں اہم کردار ادا کیا-اس سائٹ کو بند کرانے کی کوشش کرنا نواز شریف کے اینٹی اسٹبلشمنٹ ہونے کے دعوے کو مشکوک کرنے کے لیے کافی ہے-
میں نیک دلی کے ساتھ میاں محمد نواز شریف کے کارگل بارے موقف اور پاک بھارت تعلقات بارے پالیسی بیانات کا خیر مقدم کرتا رہا ہوں-لیکن اب مجھے ایسا لگتا ہے کہ میاں محمد نواز شریف کے ایسے خیالات محض رد عمل سے زیادہ نہیں تھے-وہ آج بھی اتنے ہی ضیاء کے اور آل سعود کے سچے پیروکار ہیں جتنے وہ 12 اکتوبر 1999ء سے قبل ہوا کرتے تھے-
میں شریف برادران کو بس یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ وہ پاکستان کے اندر انٹرنیٹ سنسر شپ اور اختلافی آوازوں کو پی ٹی اے کی چھری تلے ذبح کرنے کا خیال دل سے نکال دیں-یہ سنسر شپ حسنی مبارک اور طیب ارودگان جیسے آمروں کے بس میں نہیں تھی آپ تو ایک کمزور حکومت کے کمزور سربراہ ہیں-وقت بہت بدل گیا ہے-نوشتہ دیوار پڑھ لیں-اور مشرف کی سنسر شپ کا حشر یاد رکھیں-ورنہ آپ کے پاس افسوس کرنے کے اور کچھ نہیں بچے گا
with thanks
Tags:
Columns