_________________
اسلام آباد کا ’’اغوا کار‘‘ سکندر پاکستانی معاشرے‘ پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت‘ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے آخری غیبی امداد تھا‘ یہ قدرت کی طرف سے ہمارا آخری ’’مدد گار‘‘ تھا اور ہم نے اگر اس مددگار کی مدد نہ لی تو شاید چوہدری نثار کو وزارت چلانے کے لیے لندن شفٹ ہونا پڑ جائے اور یہ ایجویئر روڈ کے کسی فلیٹ میں بیٹھ کر سکائپ کے ذریعے اسلام آباد پولیس کو احکامات جاری کریں لیکن اس کے لیے چوہدری صاحب کو پہلے کمپیوٹر سیکھنا ہو گا‘ سکندر غیبی امداد کیسے تھا؟یہ آپ اس واقعے سے جان لیں گے‘ اللہ کا کوئی بندہ سیلاب میں پھنس گیا‘ پانی اس کے گھر میں داخل ہو گیا‘ ہمسائے اس کی مدد کے لیے اس کے گھر پہنچ گئے مگربندے نے یہ کہہ کر انکار کر دیا ’’ میرا مالک اللہ ہے‘ یہ مجھے بچا لے گا‘ تم لوگ میری فکر نہ کرو‘‘ ہمسائے اس کی منتیں کرتے رہے مگر وہ نہ مانا‘ وہ مایوس ہو کر چلے گئے‘ پانی گھر کی دوسری منزل تک پہنچ گیا‘ اللہ کا بندہ چھت پرچڑھ گیا۔ فوج کی ریسکیو ٹیم نے اسے دیکھا تو وہ کشتی لے کر پہنچ گئی مگر اس کا کہنا تھا ’’میرا مالک اللہ تعالیٰ ہے‘ یہ مجھے بچا لے گا‘ تم لوگ میری فکر نہ کرو‘‘ ریسکیو ورکر بھی اس کی منتیں کرتے رہے مگر وہ نہ مانا‘ اس دوران پانی کا نیا ریلا آ گیا‘ ریسکیو ورکرز کی کشتی ڈولنے لگی چنانچہ وہ واپس چلے گئے‘ وہ شخص ممٹی پر چڑھ کر بیٹھ گیا‘ محلے کے تین تیراک نوجوان جان خطرے میں ڈال کر اس تک پہنچے اور اس سے ہاتھ پکڑنے کی درخواست کی مگر وہ نہ مانا‘ وہ توکل میں ڈوبا ہوا شخص تھا‘ وہ کسی انسان کی مدد لینے کے لیے تیار نہیں تھا‘ تیراک بھی واپس چلے گئے‘ پانی کا شدید ریلا آیا‘ ممٹی بھی پانی میں ڈوب گئی‘ ممٹی پر انٹینا لگا تھا‘ اللہ کا وہ متوکل بندہ انٹینے کے ڈنڈے کے ساتھ چپک گیا اور آہستہ آہستہ اوپر تک پہنچ گیا‘ فوج کا ہیلی کاپٹر آیا‘ ہیلی کاپٹر سے رسا پھینکا گیا اور ریسکیو ورکر لائوڈ اسپیکر کے ذریعے اس سے رسا پکڑنے کی درخواست کرنے لگے مگر اس کا کہنا تھا‘ اللہ میرا مالک ہے اور وہی مجھے بچائے گا‘ اس دوران پانی کا آخری ریلا آیا اور اس شخص کو بہالے گیا۔ اس نے چند غوطے کھائے اور اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی‘ وہ سیدھا اللہ کے دربار میںپیش ہو گیا‘ اس نے اللہ تعالیٰ سے شکوہ کیا ’’یا باری تعالیٰ میں تمہارا متوکل بندہ تھا‘ میں نے تمہارے آسرے پر کسی فانی انسان کی مدد نہیں لی‘ مجھے یقین تھا تم مجھے بچا لو گے مگر تم نے میری کوئی مدد نہیں کی‘ میں مر گیا‘ لوگ اب تم پر توکل نہیں کیا کریں گے‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’ اے بے وقوف انسان! تمہارے پاس ہمسائے کو کس نے بھیجا تھا‘ ریسکیو کی کشتی‘ تیراک لڑکے اور آخرمیں ہیلی کاپٹر تم تک کس نے پہنچایا تھا‘ ہم بار بار تمہاری مدد کرتے رہے لیکن شاید تم چاہتے تھے میں اورمیرے فرشتے خود وہاں پہنچ کر تمہیں اپنے ہاتھوں سے پانی سے نکالیں‘ یہ کیسے ممکن تھا؟ اے بے وقوف انسان! ہم اپنے بندوں کی مدد کے لیے بندے بھیجا کرتے ہیں‘ ہمارے یہ بندے ہمارے معجزے ہوتے ہیں مگر تم نے ہمارا کوئی معجزہ‘ کوئی بندہ اور کوئی مدد قبول ہی نہ کی اور ہم انکار کرنے والوں کو پسند نہیں کیا کرتے‘‘ وہ شخص خاموش ہو گیا۔ آپ اس واقعے کے بعد اگر 15 اگست 2013ء کو اسلام آباد میں ہونے والے سانحے کا ٹھنڈے دل سے تجزیہ کریں تو آپ تسلیم کریں گے‘ سکندر قدرت کا آخری ہیلی کاپٹر تھا‘ اس شخص نے دو رائفلوں کے ذریعے پورے ملک کو پانچ گھنٹے کے لیے پاگل کر دیا‘ یہ اسلحہ سمیت اسلام آباد پہنچا اور ریڈ زون کے سامنے کھڑے ہو کر پوری اسٹیٹ کی طاقت کو للکارتا رہا اور ہم جوہری طاقت یہ تماشا دیکھتے رہے‘ یہ شخص قدرت کا سگنل تھا‘قدرت نے اس کے ذریعے ہمیں یہ پیغام دیا‘ آپ کی سیکیورٹی بہت کمزور ہے‘ آپ کی پولیس‘ خفیہ ادارے اور حکومت اس قدر کمزور ہے کہ ایک نیم پاگل شخص دورائفلوں کے ذریعے پورے ملک کی مت مار سکتا ہے‘قدرت نے اس سے قبل ڈی آئی خان جیل‘ بنوں جیل‘ جی ایچ کیو پر حملے‘ مہران نیول بیس‘ کامرہ ائیر بیس پر دہشت گردانہ حملے‘ دو مئی کے واقعے‘ گورنر پنجاب کے قتل‘ شہباز تاثیر‘ علی حیدر گیلانی کے اغواء‘ مساجد اور جنازہ گاہوں پر حملوں اور شیعہ سنی فسادات کے ذریعے بھی ہمیں ہماری کمزوریاں سمجھا دی تھیں۔ قدرت نے ہمیں ہر زاویئے سے بتا دیا تھا ‘ آپ نااہل بھی ہیں‘ کمزور بھی اور نالائق بھی اور آپ اگر عزت کے ساتھ زندہ رہنا چاہتے ہیں تو آپ ہنگامی بنیادوں پر اپنا سسٹم ٹھیک کر لیں‘ آپ اپنی سیکیورٹی پر توجہ دیں مگر ہم ہرواقعے کے بعد اپنا سر ریت میں چھپا لیتے تھے یا آنکھیں بند کر کے اللہ سے غیبی امداد کی درخواست کرتے رہتے تھے یہاں تک کہ ’’ایک تھا سکندر اسلام آباد کے اندر‘‘ جیسا آخری سگنل آ گیا‘ قدرت نے آخری سائرن بجا دیا‘ سکندر کا رائفلوں کے ساتھ اسلام آباد پہنچنا‘ بلیو ایریا کی مرکزی سڑک پر ہوائی فائرنگ کرنا اور پھر دنیا کے سامنے پانچ گھنٹے تک ہمارا تھیٹر چلنا‘یہ ثابت کرتا ہے ہم نا اہل بھی ہیں‘ نالائق بھی اور بے وقوف بھی‘ یہ ثابت کرتا ہے ہم وفاقی دارالحکومت تک کی حفاظت نہیں کر سکتے‘ ہمارے اداروں کے پاس مجرموں کو بے ہوش کرنے والی ’’سٹن گن‘‘ تک موجودنہیں اور اگر ہے تو بھی یہ کارآمد نہیں یا پھر یہ ہماری پولیس کو چلانا نہیں آتی‘ پولیس کے پاس ’’شارپ شوٹرز‘‘ بھی نہیں ہیں کیونکہ پولیس نے جب سکندر پر فائرنگ شروع کی تو یہ فائرنگ پوائنٹیڈ نہیں تھی۔ یہ اندھی فائرنگ تھی اور اس فائرنگ کی زد میں اس کے اپنے افسر اور اہلکار بھی آ گئے‘ پولیس زمرد خان اور نبیل گبول کو بھی مجرم کے پاس جانے سے نہیں روک سکی‘ یہ اس کا فون بھی بلاک نہیں کر سکی‘ ہماری حکومت کے پاس چینلز کی لائیو کوریج روکنے کا بھی کوئی بندوبست نہیں تھا اور یہ بھی معلوم ہو گیا وزیر داخلہ چھٹی پر ہوں یا ان سے رابطہ ممکن نہ ہو تو ریاست معطل ہو جاتی ہے‘ یہ ایٹ دی اسپاٹ فیصلہ نہیں کر سکتی‘ دو مئی کے واقعے نے ثابت کر دیا ہمارے ملک میں اسامہ بن لادن چھائونی ایریا میں چھ سال چھپ کر بیٹھ سکتا ہے ‘ امریکی ہیلی کاپٹر افغانستان سے ایبٹ آباد پہنچ سکتے ہیں اور یہ آپریشن کر کے واپس جا سکتے ہیں اور ہمیں ان کی کانوں کان خبر نہیں ہوتی‘ مہران بیس کے 22 مئی 2011ء کے واقعے نے ثابت کر دیا چند دہشت گرد ہماری تمام فورسز کو 16 گھنٹے انگیج رکھ سکتے ہیں اور ہم ان سے اپنے اورین جہاز تک نہیں بچا سکتے۔ 10 اکتوبر 2009ء کو جی ایچ کیو پر حملے نے ثابت کر دیا ہم اپنے فوجی ہیڈ کوارٹر کو بھی نہیں بچا سکتے اور ہم حملہ آوروں سے مذاکرات کے لیے ملک اسحاق کو جیل سے راولپنڈی لانے پر مجبور ہو جاتے ہیں‘ بنوں جیل‘ ڈی آئی خان جیل اور کوئٹہ پولیس لائینز کے واقعات نے ثابت کر دیا ہم اپنی جیلیں بچا سکتے ہیں اور نہ ہی پولیس لائینز اور 6 اگست 2013ء کو مچھ اور چلاس کے واقعات اور کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کے قتل عام نے ثابت کر دیا‘ ہمارے ملک میں نفرتیں پنجابی بلوچ‘ سنی شیعہ اور طالبان بیورو کریسی دشمنی میں تبدیل ہو چکی ہیں اور ہماری ریاست ان لوگوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی‘ یہ واقعات محض واقعات نہیں ہیں‘ یہ قدرت کے سگنلز ہیں اور یہ سگنلز ہمیں فوری اور حتمی فیصلوں کا پیغام دے رہے ہیں‘ اب چوہدری نثار کی پریس کانفرنسوں یا دعوئوں سے کام نہیں چل سکے گا‘ آپ کو اب کام کرنا ہو گا اور کام بھی اسی وقت اسٹارٹ کرنا ہو گا‘ آپ اگر لیٹے ہیں تو بیٹھ جائیں‘ بیٹھے ہیں تو کھڑے ہو جائیں‘ اگر کھڑے ہیں تو چل پڑیں اور اگر چل رہے ہیں تو دوڑ پڑیں اور اگر دوڑ رہے ہیں تو سرپٹ بھاگیں۔ آپ پانچ بجے کے بعد غائب ہو کر ملک کا کوئی مسئلہ حل نہیں کر سکیں گے‘ عوام آپ سے صرف تین مہینوں میں اکتا گئے ہیں‘ آپ نے اگر فوری طور پر اپنا قبلہ ٹھیک نہ کیا تو عوام چھ مہینے بعد سڑکوں پر آ جائیں گے اور یہ آپ کو اتنی رعایت بھی نہیں دیں گے جتنی انھوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کو دی تھی اور رہ گئے زمرد خان‘ انھوں نے بہادری کا ثبوت دیا‘ یہ اگر سکندر پر نہ جھپٹتے تو یہ ڈرامہ اگلے دن تک جاری رہتا‘ زمرد خان کا اقدام قابل تعریف تھا مگر انھوں نے مجرم پر جھپٹ کر قوم کو نئی راہ بھی دکھا دی‘ عوام میں سے اب ہر شخص زمرد خان بننے کی کوشش کرے گا اور یہ جان سے بھی جائے گا اور پولیس فورس کا رہا سہا بھرم بھی توڑ دے گا‘ چوہدری نثار زمرد خان کے واقعے کو بھی قدرت کا سگنل سمجھیں اور یہ فوری طور پر قانون بنا دیں۔ ملک میں آئندہ جو بھی شخص پولیس کی لگائی ہوئی پٹی یا رسی پھلانگے گا یا یہ مجرم تک پہنچنے کی کوشش کرے گا وہ اسی وقت گرفتار کر لیا جائے گا اور اسے کم از کم سات سال قید با مشقت کی سزا سنا دی جائے گی‘ ہم نے اگر آج یہ نہ کیا تو کل کو ملک میں ہزاروں زمرد خان ہوں گے اور یہ زمرد خان ملک کو انارکی کی طرف لے جائیں گے۔ چوہدری صاحب بھی ایسے واقعات میں قوم کے سامنے آیا کریں اور زمرد خان بھی پولیس کی رسی سے باہر رہا کریں‘ زندگی کھیل نہیں اور اگر ہے بھی تو اس میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی‘ یہ ضروری نہیں آپ ہر بار گریں تو قدرت آپ کو دوبارہ اٹھنے کا موقع دے دے۔