اسلام آباد بنیادی طور پر سفارتکاروں اور بڑے افسروں کا شہر ہے۔ یہاں دیسی اور غیر ملکی کمپنیوں کے لیے بڑے بڑے ٹھیکے لینے والے بھی رہتے ہیں۔ ان سب لوگوں کی بقا اور ترقی اس بات پر منحصر ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی حکومت میں اہم فیصلے کرنے والوں تک کتنی رسائی کے حامل ہیں۔ اس کے علاوہ انھیں کسی بھی ہوشیار ترین اخباری رپورٹر سے بھی زیادہ تازہ ترین خبروں کا پتہ ہونا چاہیے۔ کون سا افسر ان دنوں کی حکومت کا چہیتا ہے۔ اس کا کونسا وزیر یا ایم این اے دوست، رشتہ دار یا سرپرست ہے اور وہ کب کس اہم عہدے پر فائز ہونے ہی والا ہے۔ یہ سب موضوعات ہیں جن پر زیادہ سے زیادہ معلومات کا حصول انتہائی ضروری ہے۔
غیر ملکی سفارتکاروں کے لیے بھی یہ ساری معلومات بہت ضروری ہوتی ہیں۔ مگر ان سے بھی کہیں زیادہ اہم انھیں یہ جاننا ہوتا ہے کہ آج کل کے حکمران کون سے قلیل یا طویل المدتی اہداف کا پیچھا کر رہے ہیں۔ اسی لیے غیر ملکی سفارتکار ہوں یا غیر ملکی یا دیسی سیٹھوں کے نمایندے اپنے اپنے دستر خوان وسیع رکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ تقریباََ روزانہ کی بنیاد پر وہ دوپہر اور رات کے کھانوں پر اہم لوگوں کو بلا کر بے تکلفانہ گفتگو کے مواقع فراہم کرتے رہتے ہیں۔ اپنی جوانی کے دنوں میں جب ایسے کھانوں پر مجھے بلایا جاتا تو میں بہت خوش ہوتا۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ مگر ایسی محفلوں سے اب جی اُکتا گیا ہے۔ لاہور کی گلیوں میں جوان ہو کر مجھے شوربے میں روٹی ڈبو کر کھانے کی عادت ہے۔
بہت ساری ہری مرچوں اور گول گول کٹے پیاز کے بغیر کھانے کا ہرگز مزا نہیں آتا۔ اسلام آباد کی محفلوں میں چلے جائو تو کبھی کبھار اہم خبریں ضرور مل جاتی ہیں۔ مگر زیادہ تر بس باتیں ہی باتیں ہوتی ہیں۔ انگریزی کی بھاری بھاری اصطلاحات کے ساتھ ان محفلوں میں موجود لوگ اپنے تئیں گہری فلسفیانہ باتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ مگر ذرا دھیان سے ان کا تجزیہ کریں تو یہ باتیں مضحکہ خیز حد تک کھوکھلی یا کتابی ثابت ہوتی ہیں۔ ایسی باتوں کو چھری کانٹے کے ساتھ گوشت کے ایک بڑے اور میرے حوالے سے بے مزہ ٹکڑے کو کاٹتے ہوئے سننا مجھے تو وقت کا ضیاع ہی محسوس ہوتا ہے۔ اسی لیے گزشتہ چند برسوں سے اپنے گھر کے ایک گوشے میں ٹکے رہنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ مگر چونکہ تعلق صحافت کے شعبے سے ہے اس لیے مکمل بن باس لیتا بھی نظر نہیں آنا چاہتا۔ گھر چلانا ہے اور بچے پالنے ہیں۔
اسلام آباد میں ان دنوں موسم بدل رہا ہے۔ اکتوبر نومبر اور مارچ اپریل کے مہینوں میں اس شہر میں کھانوں کی محفلیں زیادہ ہو جاتی ہیں۔ موسم کی لذت میسر نہ بھی ہو تو چند ہی ماہ پہلے ایک نئی حکومت آئی ہے۔ اس کے اہم لوگوں کے بارے میں اسلام آباد میں مقیم سفارتکار اور دیسی و غیر ملکی سیٹھوں کے نمایندے زیادہ سے زیادہ جاننا چاہتے ہیں۔ ایک کل جماعتی کانفرنس بھی ہو گئی ہے۔ اس کے بعد طالبان سے بات چیت کے امکانات کا دروازہ کھلا ہے۔ پھر ریاستی اداروں کے چند بڑے ہی اہم عہدے ہیں جن پر ان دنوں فائز لوگوں کی ریٹائرمنٹ کے دن قریب آ رہے ہیں۔ گویا تجسس بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اسی لیے مجھے کھانوں کی دعوتیں بھی زیادہ ملنا شروع ہو گئی ہیں۔ ہر ایک کو انکار بھی نہیں کر سکتا۔ اس لیے چند دنوں سے تواتر کے ساتھ لوگوں کے گھروں میں جانا شروع ہو گیا ہوں۔
سب سے زیادہ سوال جو ان دعوتوں میں ان دنوں اٹھایا جا رہا ہے وہ جنرل کیانی کا مستقبل ہے۔ میں اس ضمن میں یہ کہہ کر منہ بند کیے بیٹھا رہتا ہوں کہ ذات کا سویلین ہوتے ہوئے مجھے ان معاملات کی کوئی خبر نہیں۔ ہر شخص مگر میری طرح ذات کا محض سویلین نہیں ہوتا۔ اس لیے تقریریں ہوتی ہیں۔ بہت سارے اندازے ہیں اور پیش گوئیاں۔ چند ایک لوگ تو اپنی کہانی سنا کر شرط باندھنے کو بھی تیار ہو جاتے ہیں۔ شرطیہ بات کرنے والے پُر اعتماد لوگوں کی اکثریت کا اتفاق اس بات پر ہے کہ کیانی صاحب کسی نہ کسی صورت دفاعی امور میں اہم اثر والے کسی نہ کسی عہدے پر اس سال نومبر کے بعد بھی فائز رہیں گے۔ میں اس دعوے کی تصدیق یا تردید نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس پر کوئی تبصرہ کرنے کی جرأت۔ فیصلہ کرنے والے وزیر اعظم جانیں اور ان کا کام۔
یہ بات البتہ میں آپ کو کھل کر بتا سکتا ہوں کہ اسلام آباد میں ان دنوں جو ملاقاتیں ہو رہی ہیں ان کے شرکاء کی اکثریت کو یقین ہے کہ طالبان کے ساتھ گفتگو کے ذریعے پاکستان میں امن قائم کرنے کی خواہش پوری نہ ہو پائے گی۔ پاکستان کی ریاست کو ان کے خلاف لڑنا پڑے گا۔ یہ طے کرنے کے بعد کہ لڑائی تو ہو کر رہے گی بحث کا رُخ اس جانب منتقل ہو جاتا ہے کہ اب تک یہ جنگ کیوں نہ لڑی گئی اور جب بالآخر یہ جنگ ہو کر رہنی ہے تو کب تک۔ دفاعی امور پر کڑی نگاہ رکھنے والوں کا خیال ہے کہ زیادہ سے زیادہ 15 اکتوبر تک فیصلہ کن لڑائی شروع کرنا ہو گی۔ اکتوبر میں کوئی آپریشن شروع نہ ہوا تو سردیاں آ جائیں گی۔ پھر اگلے سال مارچ اپریل تک انتظار کرنا پڑے گا۔ اس انتظار کا نقصان مگر یہ ہو گا کہ اس وقت تک ’’دشمن‘‘ کو بہت وقت مل جائے گا۔ وہ ریاستی پیش قدمی کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھا کر اپنی پناہ گاہوں میں اطمینان سے بیٹھ کر حملوں کا انتظار کرے گا۔ اپریل 2014ء تک افغانستان میں افراتفری بڑھ چکی ہو گی۔
امریکا اپنی فوجیں نکال رہا ہو گا۔ کرزئی کو یہ فکر لاحق ہو گی کہ اس کا انجام ڈاکٹر نجیب اللہ جیسا نہ ہو۔ افغان فوج میں بددلی پھیلی ہو گی۔ وہ طالبان کی صفوں میں جوق درجوق شامل ہونا شروع ہو جائیں گے اور ملا عمر کے بطور امیر المومنین ’’اماراتِ اسلامی افغانستان‘‘ کے دارالحکومت کابل میں واپسی کی تیاریاں۔ افغانستان میں پھیلی ابتری اور بددلی کی وجہ سے پاکستان میں موجود افغان طالبان کے دوست خود کو مزید طاقتور محسوس کرنا شروع کر دیں گے۔ پاکستان کی ریاست بھی اس فکر میں مبتلا ہو جائے گی کہ انھیں ناراض کر کے افغانستان کے آیندہ حکمرانوں سے دوستی کے امکانات نہ ختم کر بیٹھے۔ لہذا اجتماعی رائے یہی ہے کہ پاکستانی ریاست کو جو بھی کرنا ہے 15 اکتوبر 2013ء کے بعد سے شروع کر دے۔ پاکستانی ریاست اور حکومت 15 اکتوبر سے وہ سب کچھ کرنا شروع ہو جائے گی جس کی توقع کی جا رہی ہے؟ میری ذاتی رائے میں ہر گز نہیں۔ ہمارے حکمران ایک ہارا ہوا لشکر ہیں۔ یہ اس سادہ لوح کی طرح جنگل میں آ گئے ہیں جہاں اچانک شیر سامنے آ گیا تو جو کچھ کرے گا وہ شیر ہی کرے گا۔