اب ذرا ان کی شکلوں اور حلیوں پر غور کریں۔ جن قیادتوں کی ساری انرجی، سارا ’’وژن‘‘ سوٹوں، بوٹوں اور ٹائیوں کے انتخاب پر خرچ ہو جاتا ہو کیا وہ ملک کو عذاب سے نکالیں گے؟ اپنے موجودہ وزیراعظم اور گزشتہ دو وزراء اعظم یعنی راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی کو تصور میں لائیں اور غور کریں کہ منصب سنبھالتے ہی انہیں ’’وارڈروب‘‘ کس بری طرح لڑنی شروع ہو جاتی ہے، ان کے حلیئے کیسے تبدیل ہوتے ہیں۔ جون جولائی میں کسی تندور کا افتتاح بھی کرنا ہو تو یہ سوٹ چڑھا کر جائیں گے۔ اوسط درجہ سے بھی کم علم و عقل کے یہ لوگ جن کی زندگیا ں ’’کیا کھانا ہے؟ کیا پہننا ہے؟‘‘ سے آگے نہیں بڑھتیں، ہم نے اپنی قسمتوں کے فیصلے ان پر چھوڑ رکھے ہیں تو پھر ایسا ہی ہوگا۔
لیڈر کیلئے ضروری ہے کہ وہ بہت اچھی طرح جانتا ہو کہ اس نے جانا کہاں ہے اور جہاں جانا ہے وہاں لوگوں کو کیسے ساتھ لے جانا ہے، یہ پٹوار تھانیدار مارکہ کون سا معرکہ مار سکتے ہیں؟ یہ اے پی سی ٹائپ لیڈر شپ کے بس کا روگ نہیں۔