Intelligence agencies 'spied by Google' خفیہ ایجنسیوں نے ’گوگل کے ذریعے جاسوسی کی‘

Intelligence agencies 'spied by Google'  خفیہ ایجنسیوں نے ’گوگل کے ذریعے جاسوسی کی‘


امریکی اہلکار ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے افشا کیے جانے والے خفیہ دستاویزات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ امریکی اور برطانوی کمپنیاں گوگل کی پروپرائٹری یا مالکانہ کوکیز کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔



امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے حال ہی میں شائع کی گئی دستاویزات میں امریکی اور برطانوی خفیہ ایجنسیوں این ایس اے اور جی سی ایچ کیو کی جانب سے بعض صارفین کی جاسوسی کے لیے گوگل کے نظام کو استعمال کرنے کی بات کی ہے۔

اخبار کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیوں نے مشتبہ افراد کی جاسوسی گوگل کے نظام کا فائدہ اٹھا کر کی۔


گوگل نے اس پر اب تک کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

اس خبر کے سامنے آنے کے بعد گوگل اور دونوں ممالک کی حکومتوں کے درمیان تعلقات جو پہلے ہی خراب ہیں مزید خراب ہو سکتے ہیں۔

گوگل کے چیئرمین ایرک شمڈٹ نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ ان کی کمپنی نے اپنے سرور یعنی ایسے کمپیوٹر جن پر ڈیٹا محفوظ کیا جاتا ہے، امریکہ سے باہر منتقل کرنے کے بارے میں بھی سوچا تھا تاہم پھر فیصلہ کیا گیا کہ ایسا کرنا نامناسب ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ گوگل کا موقف یہ ہے کہ ’ہم اس پر شدید غصے میں ہیں۔ یہ حکومت کی جانب سے اختیارات سے تجاوز ہے اور یہی اسے بیان کرنے کے لیے بہترین الفاظ ہیں۔‘

کوکیز ایسے کمپیوٹر کوڈ کے نظام کے حصے ہوتے ہیں جو ایک فردِ واحد سے متعلق ایک ویب سائٹ پر رہ جاتے ہیں جس کی مدد سے ویب سائٹ آپ کی شناخت کرتی ہے اور گوگل جیسی کمپنیاں آپ کے علاقے یا پسند کے اشتہارات آپ تک پہنچاتی ہیں۔


جی سی ایچ کیو کے ایک ترجمان نے ان باتوں کی تصدیق یا تردید کرنے سے معذرت کی ہے

آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ آپ کیسی ویب سائٹ پر جاتے ہیں تو وہ آپ کا علاقہ اور نام یا پسند یاد رکھتی ہے جو ان کوکیز کی مدد سے ممکن ہوتا ہے۔

بنیادی طور پر یہ ویب سائٹس کا آپ کو یاد رکھنے کے نظام کا ایک حصہ ہوتا ہے اور اسی کی بنیاد پر گوگل یا دوسری کمپنیوں کے اشتہارات کی تقسیم ہوتی ہے۔

انٹرنیٹ پر ایسے طریقے موجود ہیں جن کی مدد سے ایک فردِ واحد اپنے آپ کو چھپا سکتا ہے اور ان کوکیز کے عددی کوڈ کو بدل سکتا ہے۔

یہ واضح نہیں ہے کہ حکام نے یہ معلومات کیسے حاصل کیں مگر واشنگٹن پوسٹ کا کہنا ہے کہ این ایس اے ’فیسا ایکٹ‘ یعنی فارن انٹیلجنس سرویلنس ایکٹ کے تحت ان معلومات کو حاصل کر سکتی ہے۔


جی سی ایچ کیو کے ایک ترجمان نے ان باتوں کی تصدیق یا تردید کرنے سے معذرت کی ہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post