Agar aik Fauji kisi civilian se iqtidar chin le to article 6 ka murtakib aur agar aik civilian dictator awam ko zinda dargor kar de, to kia who awam se ghadari ka murtakib nahi… by Zaheer Akhtar
بلدیاتی انتخابات کے التوا کے لیے جو سازشیں ہو رہی تھیں ان سازشوں میں سیاسی وڈیرے بڑی حد تک کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں۔ کبھی وقت کی کمی کا بہانہ کیا گیا، کبھی انتخابی فہرستوں کی تیاری میں تاخیر کے نام پر وقت لیا گیا، کبھی بیلٹ پیپر کی چھپائی کو تاخیر کا جواز بنایا گیا، کبھی پولنگ کے عملے کی فراہمی کے حوالے سے انتخابی شیڈول میں تبدیلی کی کوشش کی گئی، کبھی نئی حلقہ بندیاں کرکے انتخابی شیڈول کو سبوتاژ کیا گیا، کبھی مارچ 2014 تک انتخابات کرانے کی حامی بھری گئی، اب کہا جارہا ہے کہ مردم شماری اور ازسر نو حلقہ بندیوں میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ یہ بہانے وہ جمہوری سیاستدان تراش رہے ہیں جو ان فوجی ڈکٹیٹروں کو پھانسی پر لٹکانے کے لیے بے چین ہیں جنھوں نے اپنے دور میں بلدیاتی انتخابات کو نہ صرف ترجیح دی بلکہ ایسے بلدیاتی نظام متعارف کروائے جو نچلی سطح تک انتظامی اور مالیاتی اختیارات کو پہنچا کر گلی محلوں میں رہنے والوں کو بااختیار بناتے تھے۔
یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ ناظمین کے بلدیاتی نظام کو ایک فوجی آمر کا نظام کہہ کر مسترد کرنے والے انگریزوں کے اپنے مفادات کے لیے متعارف کرائے گئے کمشنری نظام کے نہ صرف حامی ہیں بلکہ اپنے سابقہ دور میں ان عوام دوستوں نے کمشنری نظام اپنے علاقوں میں مسلط بھی کیا۔ کبھی ایڈمنسٹریٹر کے نام پر کبھی بے اختیار میئر کے نام پر عوام کے سروں پر ایسے بیوروکریٹ مسلط کیے جن کا نہ عوام سے کوئی تعلق ہوتا تھا نہ یہ شہزادے عوامی مسائل سے آگاہ ہوتے تھے۔ اپنی فراڈ اور لوٹ مار مارکہ جمہوریت کا دفاع یہ جمہوری چمپئن یہ کہہ کر کرتے آرہے ہیں کہ اگر جمہوریت تسلسل کے ساتھ جاری رہی تو اس میں پائی جانے والی خرابیاں بتدریج ختم ہوجائیں گی۔ یہ فلسفہ پیش کرنے والے بزرگان جمہوریت اسی تناظر میں یہ کیوں تسلیم نہیں کرتے کہ بلدیاتی نظام کو تسلسل سے چلنے دیا جائے تو اس میں پائی جانے والی خرابیاں بتدریج ختم ہوجائیں گی؟ یہ سازشیں اب اس حد تک کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہیں کہ انتخابات کی بات برسوں تک جا رہی ہے۔
2008 سے 2013 تک مرکز اور تین صوبوں میں پیپلز پارٹی کی حکومت رہی۔ ملک کے 63 فیصد آبادی والے صوبے پنجاب کی سلطنت پر میاں برادران کا راج رہا۔ خیبر پختونخوا میں اے این پی جیسی مڈل کلاس کا وزیراعلیٰ اور افراسیاب خٹک جیسا سابق مارکسی دانشور پختونخوا حکومت کا سرپرست رہا۔ عوام ان سارے جمہوری چیمپئنوں سے یہ سوال کرتے ہیں کہ ان پانچ سال میں تمہیں بلدیاتی انتخابات کرانے کی توفیق کیوں نہ ہوئی؟ کیا بلدیاتی انتخابات سے ہمیشہ گریز کی پالیسی جمہوریت اور عوام سے غداری نہیں؟
ہماری یہی اشرافیہ بلدیاتی نظام کو جمہوریت کی نرسری تو کہتی ہے لیکن اس نرسری کے گملوں میں پھول پودوں کے بجائے 35 سالہ جمہوری دور میں دھول کیوں اڑتی رہی؟ اگر کوئی فوجی آمر جمہوری آمروں کی نااہلیوں، لوٹ مار اور عوامی مسائل کے حل میں ناکامی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرلیتا ہے تو وہ جمہوری حکومت کا غدار کہلاتا ہے اور جمہوریت کے علمبردار اقتدار میں آکر عوام کی چمڑی تک ادھیڑ دیتے ہیں، انھیں دو وقت کی روٹی سے محتاج کردیتے ہیں، انھیں خودکشیوں پر مجبور کردیتے ہیں اور بلدیاتی انتخابات جیسی بنیادی ضرورت سے لاتعلق ہوجاتے ہیں تو کیا یہ عوام سے غداری نہیں۔ اگر کوئی فوجی جنرل کسی سویلین سے اقتدار چھین لیتا ہے تو وہ آرٹیکل 6 کا مجرم اور حکومت کا غدار ٹھہرتا ہے، اگر کوئی سویلین ڈکٹیٹر عوام کو زندہ درگور کردیتا ہے تو کیا وہ عوام سے غداری کا مرتکب نہیں ہوتا؟
ہماری جمہوری اشرافیہ صبح شام تک قانون اور انصاف کی برتری کا راگ الاپتی ہے۔ ہماری سپریم کورٹ ہماری مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو بلدیاتی انتخابات کی بار بار حتمی تاریخ دیتی رہی، ہمارا آئین بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم دیتا ہے لیکن آئین قانون اور انصاف کے جھنڈے اٹھائے پھرنے والے قانون اور انصاف کے فیصلوں کو ہوا میں اڑاتے رہے۔ اس کی صرف اور صرف ایک وجہ یہ ہے کہ یہ سیاسی فرعون اقتدار میں کسی ’’للو پھتو‘‘ یعنی عوام کی شرکت کو پسند نہیں کرتے۔ اقتدار پر مکمل قبضہ ہماری تابناک تاریخ کا تسلسل ہے اور ہماری بے تاج بادشاہ اشرافیہ کو بلدیاتی نظام سے یہ خوف لاحق ہے کہ اگر یہ نرسری پھلتی پھولتی رہی تو آہستہ آہستہ اس نرسری میں کھلنے والے پھول ان کی موروثی حکمرانیوں کے لیے ایسے کانٹے بن جائیں گے جو ان کے موروثی اقتدار کے دامن کو تار تار کردیں گے۔
ہمارے حکمران اپنی جمہوریت کے محل کے پلروں کو کروڑوں روپوں کے ترقیاتی فنڈ سے مضبوط بناتے رہے ہیں، اگر ایسا بلدیاتی نظام رائج ہوتا ہے جس میں انتظامی اور مالی اختیار نچلی سطح تک جاتے ہیں تو جمہوریت کے پلر کروڑوں روپوں کے ’’ترقیاتی فنڈ‘‘ سے محروم ہوجاتے ہیں اور یہ محرومی انھیں حکمرانوں سے باغی بناتی ہے، یہ وہ خوف ہے جو بااختیار بلدیاتی نظام کی راہ میں روڑا بنا ہوا ہے اور اس نظام سے بچنے کے لیے ہر روز جو نئے نئے بہانے تراشے جا رہے ہیں وہ سب انتظامی اور مالی اختیارات کو تقسیم ہونے سے بچانے کے بہانے ہیں۔
اقتدار کی تقسیم کے خوف کے علاوہ سیاسی اشرافیہ کو یہ خوف بھی لاحق ہے کہ عوام ان کی ’’شاندار کارکردگی‘‘ سے اس قدر متاثر ہیں کہ بلدیاتی انتخابات میں اپنے ووٹوں سے محروم کرکے ان کی مصنوعی مقبولیت کا بھانڈا پھوڑ دیں گے۔ اس خوف کی وجہ سے یہ ’’مقبول عوام رہنما‘‘ بلدیاتی انتخابات کو غیر جماعت بنیاد پر کرانے کی بھرپور کوشش کرتے رہے لیکن کمشنری نظام کے نفاذ میں ناکامی کی طرح غیر جماعتی بنیاد پر بلدیاتی انتخابات کرانے کی سازش میں بھی انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں بھی عدلیہ ان کے آڑے آئی۔ ہمارے سابق چیف جسٹس صاحب سے بہت سارے لوگوں کو بہت سے اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن بلدیاتی انتخابات کرانے کے عوام کے حوالے سے چوہدری صاحب نے جو کوششیں کیں، حکومتوں پر جتنا شدید دباؤ ڈالا اس کا اعتراف نہ کرنا زیادتی ہوگا، لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ اشرافیہ نے چیف صاحب کی ساری کوششوں کو سبوتاژ کردیا۔
ہمارے دھانسو رہنما عمران خان یہ دعوے کرتے رہے کہ وہ اپنے صوبے میں سب سے پہلے بلدیاتی انتخابات کرائیں گے اور ایسا بلدیاتی نظام لائیں گے جو سب سے منفرد اور بااختیار ہوگا لیکن اب اس حوالے سے خان صاحب کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ خان صاحب بھی بلدیاتی انتخابات کے ممکنہ نتائج سے خوفزدہ ہیں۔ بعض سیاسی رہنما امن و امان کی صورت حال کو بھی بلدیاتی انتخابات سے بچنے کا بہانہ بنا رہے ہیں۔ بلوچستان امن و امان کے حوالے سے بدترین صورت حال سے دوچار ہے لیکن بلوچستان کی حکومت نے بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کروا کر ثابت کردیا ہے کہ کوئی بہانہ بلدیاتی انتخابات کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتا۔