Billa, bheega billa, billey ko lagtay par بلا۔۔ بھیگا بلا۔۔ بلے کو لگتے پَر؟ کالم نگار | احمد جمال نظامی
آصف علی زرداری نے سیاسی اصطلاح میں بلے کا نیا نام متعارف کروایا ہے جس کے بعد وہ سیاسی میدان میں بلے کے ساتھ ہی مسلسل موضوع سخن بنے ہوئے ہیں۔ بلے کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ رات کے دوسرے پہر آ کر دودھ پی جاتا ہے اور مسلسل جمہوری قوتوں، سیاست دانوں کو آپس میں لڑوایا جا رہا ہے۔
آصف علی زرداری کے نعرہ بلے کے بعد پرویزمشرف نے خود کو رات کے دوسرے پہر آ کر دودھ پینے والا بلا تسلیم کرتے ہوئے آصف علی زرداری سے سوال کر ڈالا ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو کے جاں بحق ہونے کے بعد کس بلے نے آ کر دودھ پیا۔ پیپلزپارٹی کے مختلف عہدیداران اور ارکان اسمبلی خود بلے کے مختلف زاویوں پر روشنی ڈالنے میں مصروف ہیں۔ آصف علی زرداری نے بلے کے کردار کا تذکرہ کرتے ہوئے آرٹیکل 6 پر بھی من و عن عمل درآمد کرنے کا مطالبہ نعرہ مستانہ بلند کرتے ہوئے کیا تھا۔
شاید آصف علی زرداری خود بھول رہے ہیں کہ اس بلے کو انہوں نے مکمل گارڈ آف آنر دے کر ایوان صدر سے رخصت کیا تھا۔ بلے کی طرف سے اب مسلسل کہا جا رہا ہے کہ اسے پاک فوج کی مکمل حمایت حاصل ہے اس پر قائم ہونے والے مقدمات اور خصوصی عدالت کے قیام پر فوج میں تشویش پائی جاتی ہے۔ بلے نے کہا کہ وہ چیف آف آرمی سٹاف پر چھوڑتے ہیں کہ وہ ان کے مسئلے پر کس حد تک جاتے ہیں۔
بلے کی طرف سے پاک فوج کی حمایت کے دعوے پر پیپلزپارٹی کے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ خاموشی نیم رضامندی ہوا کرتی ہے لہٰذا پاک فوج اس ضمن میں وضاحت کرے۔ سیاسی حلقوں کی طرف سے سید خورشید شاہ کے اس مطالبے کو بھی نیک شگن کے طور پر نہیں دیکھا جا رہا۔
جہاں تک بلے کا تعلق ہے تو پاکستان کی تاریخ ایسے بلوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے جمہوریت پر شب خون مارا اور جب شب خون مارا جائے تو ایسے بلے یقینا خونخوار ہو جایا کرتے ہیں لیکن اس بلے کو آصف علی زرداری نے دودھ پینے کا طعنہ دیا ہے۔
آصف علی زرداری وطن عزیز کی تاریخ میں پانچ سال پورے کرنے والے پہلے جمہوری صدر ہیں اور 2008ء سے لے کر 2013ء تک اپنی حکومت کے پانچ سال پورے کرنے والی پیپلزپارٹی کی بھی گذشتہ حکومت وطن عزیز کی تاریخ کی پہلی ایسی جمہوری حکومت ہے جس نے اپنے اقتدار کے پانچ سال پورے کئے لیکن آصف علی زرداری اور ان کے ہمجولی حکمران پانچ سالوں تک بلے کے خلاف کچھ نہیں کر سکے۔
محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کیس میں بھی بلے کے نامزد ہونے کے باوجود پیپلزپارٹی کی حکومت کی طرف سے کچھ نہ کیا جا سکا اور جب بلا ملک میں واپس بھی آ گیا۔ حقائق یہی بتاتے ہیں کہ پیپلزپارٹی داخلی اور خارجی محاذ پر غیرملکی طاقتوں کی آلہ کار بنی رہی اور انہی طاقتوں کی سوچ و فکر کو مدنظر رکھتے ہوئے بلے کو آزاد گھومنے پھرنے کی اجازت رہی۔ بلا آج بھی بھڑکیں لگانے میں مصروف ہے اس کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ اس کے خلاف کیس صرف اور صرف فوجی عدالت میں چلایا جا سکتا ہے اگر بات صرف بلے کی ہے تو اس کے خلاف کیس فوجی عدالت میں چلانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اس بلے نے آئین سے بغاوت کرتے ہوئے آئین کو توڑا۔ ایمرجنسی نافذ کی اور خود ٹی وی پر آ کر بھڑک لگائی کہ میں ملک میں ایمرجنسی ڈکلیئر کرتا ہوں۔ یہ بلا کئی دنوں تک دیارغیر میں پناہ گزین رہا تو وطن واپس آنے کے بعد بھیگا بلا بنا رہا مگر افسوس سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے جانے کے بعد جن شرپسند قوتوں کو زبان لگ گئی ہے ان میں یہ بلا بھی شامل ہو گیا ہے اور بلا ہونے کے باوجود ایک مرتبہ پھر دیارغیر پروان لینے کے لئے پرتول رہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر بلے کو آئین اور قانون کے تحت عبرت کا نشان بنا دیا جائے تو آئندہ کوئی بلا جمہوریت پر شب خون مارنے کے لئے رات کے دوسرے پہر آ کر دودھ پینے کی جسارت نہیں کرے گا۔ اس بلے کو اس وقت بھی آئین اور قانون کے تابع لاتے ہوئے لگام ڈالنے کی ضرورت ہے۔ مگر گذشتہ روز عدالت میں پیشی کے موقع پر طبیعت اچانک خراب ہونے پر بلے کو عدالت کی بجائے امراض قلب ہسپتال لے جانا پڑا اور شنید ہے کہ خرابی صحت کی وجہ سے شاید علاج کے لئے باہر لے جانا پڑے اور اس راہ میں کوئی مزاحم نہیں ہو گا۔