Why court marriage? کورٹ میرج کیوں؟
والدین کا بہتر رویہ نئی نسل کو بغاوت سے روک سکتا ہے۔ فوٹو: فائل
بچہ جب لڑکپن سے جوانی کی سیڑھی پر قدم رکھتا ہے تو اس کے احساسات اور جذبات ایک نئی جہت اختیار کرنے لگتے ہیں اور وہ خود کو ہواؤں میں اڑتا محسوس کرتا ہے۔
شباب کا یہ دور اسے ایک انوکھی سرشاری میں مبتلا کر دیتا ہے، جہاں وہ محض اپنے ہی بارے میں سوچنا اور بات کرنا اور سننا پسند کرتا ہے۔ وہ اپنے فیصلے خود کرنا چاہتا ہے۔ اس کی منشا ایک ایسی دنیا ہوتی ہے جہاں محض اس کی حکمرانی ہو ۔ کسی روک ٹوک سے آزاد اپنی تمام خواہشوں کو پورا کر سکے، اپنے ہر سپنے کو سچ کر سکے۔ ماں باپ کی ڈانٹ ڈپٹ، روک ٹوک اب اسے کانٹے کی طرح چبھتی محسوس ہوتی ہے۔ وہ خود سے جڑے رشتوں خاص طور پر والدین سے پیارومحبت، دوستانہ رویے اور بھروسے کا متقاضی ہوتا ہے۔ وہ اس پُرکشش دنیا میں موجود کرداروں کو خود سے پرکھنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ زندگی کے اس دور میں اسے بہتر راہ نماؤں کی ضرورت ہوتی ہے، جو اسے اس پرخار گھاٹی کے پرپیچ رستوں کی اونچ نیچ سمجھا سکیں اور کسی راہ دکھانے والے کا یہ کردار والدین سے بہتر کوئی اور ادا نہیں کر سکتا۔ لہٰذا یہی وہ وقت ہوتا ہے جہاں والدین کو اپنے سخت حاکمانہ مزاج سے کچھ نیچے آنے کی ضرورت ہوتی ہے، کیوں کہ اسی دور میں والدین کی جانب سے اختیار کیا جانے والا رویہ بچے کی شخصیت کو سنوار دیتا ہے اور اسے خود اعتمادی بخشتا ہے یا پھر اس کی شخصیت میں دراڑیں پیدا کر کے اسے انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کر دیتا ہے۔
تعلیم اور ملازمت کے معاملات سے لے کر اس کی شادی تک کے معاملات، اب اس کی مرضی کے خلاف ہونے خاصے مشکل ہو جاتے ہیں۔ اگر انہیں جبراً کسی سمت دھکیلا جائے تو وہ سخت بے چینی میں مبتلا ہو جاتے ہیں، جس کا نتیجہ بغاوت کی صورت میں ہوتا ہے۔ ایسی ہی ایک بغاوت کی علامت ’’کورٹ میرج‘‘ ہے۔ یہ انتہائی اقدام اس بات کا اشارہ ہے کہ والدین اور بچوں کے درمیان خلیج نہایت وسیع ہو چکی ہے اور دونوں ایک دوسرے کو سمجھنے اور بھروسا کرنے پر تیار نہیں۔ والدین اور بچوں کے درمیان اس سطح کی ذہنی ہم آہنگی ہی نہیں ہے کہ وہ اپنی پسند والدین کو بتا سکیں اور نہ ہی والدین میں اتنا حوصلہ کہ وہ معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنے بچوں بالخصوص بیٹیوں پر اعتماد کریں۔ اگر والدین شروع ہی سے اپنے بچوں خصوصاً بیٹیوں کو اعتماد دیں اور جھجک، عمروں کے فرق اور نام نہاد ادب کے نام پر غیر ضروری فاصلوں کو پیدا نہ کریں اور لچک دار ماحول میں انہیں زمانے کی اونچ نیچ سکھائیں اور بتا سکیں کہ کیا اچھا ہے اور کیا برا، تو کورٹ میرج جیسے انتہائی اقدام کی ضرورت پیش نہیں آئے گی، کیوں کہ یہ والدین کا اعتماد اور ان کی اچھی تربیت ہی ہوتی ہے، جو کبھی بھی بچوں کو بھٹکنے نہیں دیتی۔
والدین کو چاہیے کہ اگر ان کے بچے کسی کو پسند کرتے ہیں تو وہ ایک بار ان سے ملیں ضرور، اور اگر آپ کو اس میں کوئی برائی نظر نہیں آتی تو اعلا ظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے بچوں کی پسند کا احترام کریں اور اگر آپ کو واقعتاً وہ اپنے بچے کے لحاظ سے مناسب جوڑ نہیں لگتا، تو نہایت پیار ومحبت اور شفقت سے اس کا اچھا برا سمجھائیں، نا کہ اسے جذباتی اور نفسیاتی طور پر بلیک میل کریں اور اپنے فیصلے پر ڈٹ کر بچوں پر سختی شروع کر دیں۔ دراصل والدین کا رویہ ہی ہوتا ہے جو بچوں کو باغی کر کے انہیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ اس کے والدین اس کی خواہش میں رکاوٹ ہیں اور اس سوچ کے پیدا ہونے کے بعد وہ گھر سے فرار اختیار کرنے لگتے ہیں اور پھر کورٹ میرج جیسا قدم اٹھا لیتے ہیں۔ والدین پہلے ہی اپنے بچے کی اس پسند سے ناخوش ہوتے ہیں۔ کورٹ میرج کو وہ اپنے خلاف ایک اعلان جنگ تصور کرتے ہیں اور پھر دوریوں کا یہ بیج جڑ پکڑ جاتا ہے۔ اکثر والدین اسی موقع پر اپنے بچوں کو عاق کر دیتے ہیں یا پھر کبھی بچے اور والدین ایک دوسرے کی صورت نہیں دیکھتے۔ زندگی کے کسی مرحلے پر دونوں کو ہی اس جدائی کا قلق ہوتا ہے۔
اگر بیٹی ایسا قدم اٹھا لے تو والدین کی خاندان اور معاشرے میں بھی جگ ہنسائی ہوتی ہے اور بچے ہوں یا والدین دونوں ہی لوگوں سے کترائے کترائے رہتے ہیں۔ ایسی ناپسندیدہ صورت حال سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ماں باپ بچوں سے دوستانہ رویہ رکھیں۔ گھر کا ماحول ایسا رکھیں کہ بچہ اپنی معمولی سے معمولی بات بھی آپ کو بتائے، تاکہ آپ اس کی بہتر راہ نمائی کر سکیں اور بتا سکیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے۔ ایسا نہ ہوکہ کل کو پچھتاوا مقدر بن جائے اور محبت سے گندھے رشتے ناپسندیدگی کی پرچھائیں کی نذر ہو جائیں۔
Tags:
News