انداز ہو بہو تری آوازِ پا کا تھا : احمد ندیم قاسمی
انداز ہو بہو تری آوازِ پا کا تھا
دیکھا نکل کے گھر سے تو جھونکا ہوا کا تھا
اٹھا عجب تضاد سے انسان کا خمیر
عادی فنا کا تھا تو پجاری بقاء کا تھا
اس رشتۂ لطیف کے اسرار کیا کھلیں
تو سامنے تھا اور تصور خدا کا تھا
ٹوٹا تو کتنے آئینہ خانوں پہ زد پڑی
اٹکا ہوا گلے میں جو پتھر صدا کا تھا
چھپ چھپ کے روؤں اور سرِ انجمن ہنسوں
مجھ کو یہ مشورہ مرے درد آشنا کا تھا
دل راکھ ہو چکا تو چمک اور بڑھ گئی
یہ تیری یاد تھی کہ عمل کیمیا کا تھا
اس حسنِ اتفاق پہ لٹ کر بھی شاد ہوں
تیری رضا جو تھی وہ تقاضا وفا کا تھا
حیران ہوں کہ دار سے کیسے بچا ندیم
وہ شخص تو غریب و غیور انتہا کا تھا