بنگلہ دیشی عوام اور پاکستان سے محبت کی شمع
27 مارچ 2014 - بشکریہ روزنامہ پاکستان
مجھے تو لگتا ہے بنگلہ دیشی حکومت عبدالقادر مُلا کی روح سے خوفزدہ ہے۔ کرکٹ میچوں کے دوران سوائے پاکستان کے اور کسی دوسرے ملک کا جھنڈا لہرایا ہی نہیں جاتا۔ بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم جن دن کھیل رہی ہو، اُس دن بنگلہ دیشی پرچم بڑی تعداد میں لہرائے جاتے ہیں تاہم جب پاکستان اور بنگلہ دیش کا مقابلہ ہو رہا ہو تب بھی پاکستانی جھنڈوں کی تعداد کم نہیں ہوتی۔ سو یہ ثابت ہو گیا کہ بنگلہ دیش کی حکومت نے سٹیڈیم میں غیر ملکی جھنڈے لہرانے پر پابندی کا جو فیصلہ کیا ہے، وہ پاکستان کو مدنظر رکھ کر کیا گیا ہے، اس کے لئے بھونڈی توجیح یہ پیش کی گئی ہے کہ اس سے امن و امان کا مسئلہ پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ کمال ہے دنیا میں جہاں بھی کرکٹ میچ ہوتے ہیں سٹیڈیم میں کھیلنے والی دونوں ٹیموں کے قومی پرچم لہرائے جاتے ہیں، دنیا میں آج تک کہیں ایک بھی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا، جس میں جھنڈے لہرانے پر دنگا فساد ہوا ہو۔ بنگلہ دیشی حکومت شاید اس لئے پاکستانی پرچموں کے لہرانے سے خوفزدہ ہو گئی ہے کہ وہ پاکستان سے پیار کرنے والے ایک رہنما کو پھانسی دے چکی ہے۔ اب اگر اتنی بڑی تعداد میں پاکستان سے محبت کرنے والے بنگلہ دیش میں نظر آئیں گے، تو اُن کے اس جرم کی سنگینی مزید بڑھ جائے گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بنگلہ دیشی عوام کا پہلا پیار اُن کی اپنی ٹیم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اُن کی ٹیم پاکستان سے ہاری تھی، تو وہ دھاڑیں مار مار کر روئے تھے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بنگلہ دیش کے بعد وہاں کے عوام جس ٹیم کو جی جان سے چاہتے ہیں اور اُس کی حمایت کرتے ہیں، وہ پاکستان کرکٹ ٹیم ہے۔ بات خطے کی نہیں اُن تاریخی تناظر کی ہے، جس میں پاکستان اور بنگلہ دیش بندھے ہوئے ہیں۔ بات خطے کی ہوتی تو بنگلہ دیش کے عوام بھارت، افغانستان اور سری لنکا ٹیموں کی حمایت بھی کرتے، لیکن اگر وہ صرف پاکستان کی حمایت کرتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اُن کے جذبے پاکستان سے ملے ہوئے ہیں۔ حیران کن امر یہ ہے کہ بنگلہ دیشی نوجوانوں کی بڑی تعداد پاکستانی پرچم لے کر گراﺅنڈ میں آتی رہی ہے۔ انہوں نے صرف سنا ہے کہ بنگلہ دیش پہلے پاکستان کا حصہ تھا، مگر اُن کی رگوں میں پاکستان سے محبت کی جو لہر نسل در نسل آ رہی ہے اسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ مَیں سمجھتا ہوں عبدالقادر مُلا کی شہادت نے اس لہر کو ایک نئی زندگی دی ہے۔ ان کی قربانی رائیگاں نہیں گئی۔ پروپیگنڈہ یہ کیا جا رہا تھا کہ پاکستان میں عبدالقادر مُلا کی شہادت پر ہونے والے ردعمل نے بنگلہ دیشی عوام کو ناراض کر دیا ہے اور یہ تک کہا گیا کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کو بھی سیکیورٹی کے حوالے سے خطرات لاحق ہیں، مگر سب نے دیکھا اور اندھے کو بھی نظر آ رہا ہے کہ بنگلہ دیش کے لوگ پاکستان سے پیار کرتے ہیں، وہ آج بھی پاکستان کو اپنا دوسرا وطن سمجھتے ہیں، جدا ہونے کے باوجود پاکستانیوں کے لئے اُن کے دِلوں میں ایک نہ ختم ہونے والی محبت موجود ہے، جو گاہے بہ گاہے اپنا رنگ جماتی اور جلوے دکھاتی رہتی ہے۔ یہ فیصلہ تو عالمی کرکٹ کونسل نے کرنا ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت نے گراﺅنڈ میں جھنڈے لہرانے پر جو پابندی لگائی ہے، وہ منصفانہ ہے یا نہیں، اُسے یہ بھی دیکھنا ہے کہ کھیل جو ہمیشہ سپورٹس مین سپرٹ کا درس دیتے ہیں اور جن کی وجہ سے لوگوں میں اپنے اپنے ملک کے لئے حب الوطنی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ کیا ایسے متعصبانہ فیصلوں سے پراگندہ نہیں ہو جائیں گے؟
میرا اپنا خیال یہ ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت نے یہ فیصلہ کر کے بنگلہ دیش میں پاکستان کے لئے محبت واخوت کے مزید جذبات پیدا کر دیئے ہیں۔ جذبے کبھی دبائے نہیں جا سکتے اور یہ تو ممکن ہی نہیں کہ جو چیز انسان کے وجود میں سرایت کر چکی ہو اُسے کسی حکومتی فیصلے سے ختم کیا جا سکے، اس لئے بھلے گراﺅنڈ میں پاکستانی پرچم موجود نہ ہوں، لوگوں کے دِلوں میں پاکستانی ٹیم کے لئے محبت اور یگانگت ضرور موجود رہے گی۔ یہ منظر اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں کہ جن میں ہزاروں بنگلہ دیشی اپنے چہروں پر پاکستانی پرچم پینٹ کرا کے یا ہاتھوں میں جھنڈے اٹھائے پاکستانی ٹیم کی اس طرح حمایت کرتے رہے ہیں، جیسے وہ اُن کی اپنی ٹیم ہو۔
سقوطِ ڈھاکہ جن حالات میں رونما ہوا اور اس میں بھارتی پروپیگنڈے اور مسلح مداخلت نے جو کردار ادا کیا، وہ تو اب تاریخ کا حصہ ہے، لیکن آج کے حالات یہ ثابت کر رہے ہیں کہ اس فیصلے کو بنگلہ دیشی عوام نے دل سے قبول نہیںکیا، وہ آج بھی خود کو پاکستان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ سرحدیں ملنے اور بے پناہ تجارت کے باوجود بنگلہ دیشی عوام کی محبت کبھی بھی بھارتیوں کے ساتھ نہیں رہی، اس کا اظہار پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان میچ کے موقع پر بھی ہوتا ہے اور عام حالات میں بھی، گویا تاریخی و ثقافتی رشتے آج بھی پاکستانی و بنگلہ دیشی عوام کو ایک ڈوری میں پروئے ہوئے ہیں۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اس حقیقت کو بنگلہ دیشی اسٹیبلشمنٹ، فوج اور حکمران تسلیم نہیں کرتے، وہ اسے اپنے لئے کڑوی گولی سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے 40سال پہلے کے ”جرائم“ کو بنیاد بنا کر عبدالقادر مُلا کو پھانسی دی، تاکہ بنگلہ دیشی عوام کے ذہن کو اس حوالے سے زہریلا کیا جا سکے، لیکن اس پھانسی کے خلاف خود بنگلہ دیش میں جو ردعمل ہوا، اُس نے اس قتل کو بنگلہ دیشی حکمرانوں کے لئے ایک گہرا داغ بنا دیا۔
عبدالقادر مُلا کو جب الوطنی کی سزا دی گئی، کیونکہ جب انہوں نے پاکستان بچانے کی جدوجہد کی، تو اُس وقت بنگلہ دیش کا وجود ہی نہیں تھا۔ اُس وقت تو صرف پاکستان تھا اور حب الوطنی کا تقاضا یہی تھا کہ اُسے بچایا جائے۔ بنگلہ دیش بن جانے کے بعد انہوں نے بنگلہ دیش کے خلاف کوئی تحریک نہیں چلائی تھی۔ البتہ وہ پاکستان سے محبت ضرور کرتے تھے۔ بالکل اُسی طرح جیسے کروڑوں دیگر بنگلہ دیشی بھی کرتے ہیں، انہیں عبرت کا نشان بنانے اور پاکستان سے محبت کو ایک”جرم“ ثابت کرنے کے لئے بنگلہ دیشی حکومت نے انہیں پھانسی تو دے دی، لیکن یہ کام اُلٹا پاکستان سے محبت کی نئی شمع جلا گیا، جس کا اظہار اُس وقت ہوا، جب پاکستان کی کرکٹ ٹیم مقابلوں میں حصہ لینے بنگلہ دیش پہنچی، پاکستان سے بڑھتی ہوئی محبت کو دیکھ کر سٹیڈیم میں پرچم لہرانے کو ممنوع قرار دینے کی حکمت عملی بنگلہ دیشی حکومت کے لئے جگ ہنسائی کا باعث بنے گی۔ بنگلہ دیش کے حکمران لاکھ انکار کریں کہ یہ فیصلہ کسی خاص ملک کی خلاف نہیں، مگر شواہد چیخ چیخ کر اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ یہ فیصلہ بنگلہ دیشی عوام کی طرف سے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی حد درجہ بڑھتی ہوئی حمایت کا تاثر ختم کرنے کے لئے کیا گیا ہے۔ سٹیڈیم میں لہراتے پرچم تو کیمروں کے ذریعے پوری دنیا کو نظر آ جاتے ہیں جبکہ دِلوں میں موجود محبت کو دیکھا نہیں جا سکتا۔ بنگلہ دیش کے عوام کو اہل ِ پاکستان سلام پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے تمام ترمنفی پروپیگنڈے اور دباﺅ کے باوجود اخوت و محبت کی اس شمع کو بجھنے نہیں دیا، جو برصغیر کے مسلمانوں کا ورثہ ہے اور جسے1947ءمیں قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی قیادت میں انہوں نے آزادی کی شمع کا نام دیا ہے۔ یہ شمع آج بھی زندہ ہے اور ہمیشہ اسی طرح فروزاں رہے گی۔ ٭