سینئر وزیر اور پاکستان مسلم لیگ (ن ) بلوچستان کے صدر سردار ثناء اللہ زہری خان نے کہا ہے کہ بھارت صوبے میں علیحدگی پسند تحریک کی فنڈنگ کرتا ہے۔ گوادر پورٹ کی ناصرف سیاسی، بلکہ جغرافیائی سطح پر بھی بڑی اہمیت ہے اور اس کو استعمال کے قابل بنانے سے دیگر علاقائی بندرگاہوں کے لئے مدد گاہ ثابت ہو گا۔ اگر ساحلی شہر گوادر کی بندرگاہ کو استعمال کے قابل بنادیا گیا تو کچھ دیگر پڑوسی ممالک پاکستان کو غیر مستحکم کرنے اور صوبہ میں بدامنی پھیلانے کے لئے بھارت کی مدد کرسکتے ہیں، کیونکہ گوادر پورٹ کی تعمیر سے چین، وسطی ایشیائی ممالک، افغانستان اور پاکستان کے درمیان تجارت کی ایک راہ ہموار ہوگی، جس سے ملک کی معاشی صورت حال میں بھی بہتری آئے گی جو بھارت کو منظور نہیں۔ گوادر پورٹ سے ملکی معیشت مستحکم ہونے کے ساتھ ساتھ صوبے میں نوجوانوں کو روز گار کے مواقع میسر آئیں گے۔
بھارت، افغانستان میں پناہ گزین براہمداخ بگٹی کے علاوہ دیگر بلوچوں کو بلوچستان میں بدامنی کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ بلوچستان کے علیحدگی پسندبھارتی سرمائے سے یورپی ممالک برطانیہ، کینیڈا، دبئی، اومان کے ہوٹلوں میں رہائش پذیر ہیں۔ را کے زیر سرپرستی بلوچ علیحدگی پسندوں کو تخریبی کارروائیوں کے لئے افغانستان میں قائم مختلف تعلیمی اداروں میں ورغلا کرعظیم تر بلوچستان کے بارے میںگمراہ کن تھیوریاں بتائی جا رہی ہیں جس میں انہیں پاک فوج اور آئی ایس آئی سے متنفر کرنے کے لئے خصوصی سیمینار کا اہتمام بھی کیا جا رہا ہے۔
بلوچستان میں لا پتہ افراد کو ڈھونڈنے کے لئے حال ہی میں اقوام متحدہ کے مشن کی آمد ، امریکہ کی آزاد بلوچستان تحریک اور منحرف بلوچ رہنماو¿ں کی بھارت نواز زبانیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ بلوچستان کی پاکستان سے علیحدگی کی تیاریاں زوروں پر ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے 1998 میں انڈونیشیا کے ستائیسویں صوبے مشرقی تیمور کی ملک سے علیحدگی اور اسے ڈیموکریٹک ری پبلک آف تیمور کے نام سے نیا ملک بنانے میں اقوام متحدہ کابھیانک کردار۔ وہاں تو اقوام متحدہ نے یہ بہانہ بنایا تھا کہ مشرقی تیمور میں عیسائی آبادی زیادہ ہے اور ان کو اپنا علیحدہ وطن بنانا چاہیے۔ جس کے بعد آسٹریلیا نے مشرقی تیمور میں عیسائی آبادی میں نفرت کے الاو¿ بھڑکائے۔فوج اور عوام کے درمیان تصادم کی راہ ہموار ہوئی تو اقوام متحدہ کے مختلف کمشن اور گروپ حرکت میں آگئے۔ نام نہاد جنگ کو جنگ آزادی کا نام دیا گیا اور یوں 20 مئی 2002ء میں انڈونیشیا اپنے ایک صوبے سے محروم ہوگیا، جیسے 1971ءمیں پاکستان ، مشرقی پاکستان سے محروم ہوگیا تھا، مگر سوال یہ ہے کہ بلوچستان میں رہنے والے تمام بلوچ مسلمان ہیں لہذا مذہبی منافرت کے طورپر تو علیحدگی کا تصور نہیں ۔ لسانی بنیادوں پر بھی علیحدگی پسندوں کی اتنی بڑی تعداد نہیں کہ ان کے کہنے پر بلوچستان کو علیحدہ کر دیا جائے۔ تو کیا لسانی ، گروہی اور قبائلی بنیاد پر اقوام متحدہ کے گروپ اور کمشن بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کے درپے ہیں ۔ایک برطانوی ادارے کے سروے کے مطابق 63 فیصدبلوچ عوام پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں ۔
یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان میں کشیدگی کی وجہ بہت سارے عناصر اور ایسے قوتیں ہیں جو محب وطن نہیں۔ایف سی کی یونیفارم میں شر پسند عناصر نے بہت سی تخریبی کارروائیوں میں حصہ لیا ،پنجابیوں کو ماراگیا ،بات نہ بنی تو پھر سندھیوں کو قتل کیا گیا پھر اس کے بعد فقیر ،مسافراور دیگر لوگوں کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ کام بیرونی اشاروں پر چلتی ہوئی علیحدگی پسند تنظیموں کا ہے۔ لوگوں کے اغوا اور قتل میں بھی یہی تنظیمیں ملوث ہیں۔بھارت بلوچستان کے باغیوں کی نہ صرف پیٹھ ٹھونک رہا ہے، بلکہ انہیں مالی وسائل بھی مہیا کر رہا ہے۔ بھارتی سازشوں کا مرکز افغانستان کے صوبہ قندھار میں ہے اور اس کی بیشتر برانچیں اب افغانستان کے دوسرے صوبوں میں بھی میں کھل گئی ہیں۔ جہاں پاکستان سے اغوا کئے گئے بے روزگار پڑھے لکھے جوانوں کو معاشی ترغیبات سے اپنے ہی ملک کے خلاف بھڑکایا جاتا ہے۔ بلوچستان کے بے روزگار نوجوانوں کو دس دس ہزار روپے تنخواہ دے کر ملک دشمن سرگرمیوں کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔
بلوچستان میں بھارتی ایجنٹ سرگرم عمل ہیں۔ اب تو صوبے میں باقاعدہ دہشت گردی ہورہی ہے۔ میزائل حملے جاری ہیں اورلوگوں کو گوادر اور فوجی چھا¶نیوں کی تعمیر کے خلاف بھڑکادیا گیا ہے۔موجودہ صورت حال بھارتی سیاست کے چانکیائی ٹرکس کی منظر کشی کرتی ہے۔بھارت کی طرف سے بلوچستان میں کھلی مداخلت کے سازشی کھیل کا ہی کوئی حصہ ہے جسے بلوچستان کے عوام اور حکومت پاکستان مل کر ہی ناکام بنا سکتے ہیں۔ بلوچستان میں جاری شورش کو بھارت پہلے بھی ہوا دیتا رہا ہے ،بلکہ بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ ’بی رامن‘ نے تو بلوچستان میں حکومت پاکستان کے خلاف لڑنے والوں کی مدد کرنے کو بھارت کی تاریخی و اخلاقی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے یہاں تک کہا کہ بلوچستان میں پاکستانی فورسز کی طرف سے جاری آپریشن کا سبب ہندوبلوچ بنے جنہیں پاکستانی حکومت صوبہ بلوچستان سے بے دخل کرنا چاہتی تھی اور اس مقصد کے لئے ان پر ہوائی حملے بھی کئے گئے جن کے سامنے بلوچ قوم پرست ڈھال بن گئے اور انہوں نے کمال ہوشیاری اور جرات سے پاکستانی فورسز کی توجہ ہندو بلوچوں سے ہٹانے کے لئے سوئی گیس کی تنصیبات اور بلوچستان کو دیگر صوبوں سے ملانے والی ریلوے لائن کو بارود سے اڑانا شروع کر دیا۔
بھارتی انٹیلی جنس ادارے ”را“ نے بلوچستان اور ہمارے قبائلی علاقوں اور صوبہ سرحد کو ہدف بنا رکھا ہے۔ بھارت کو افغانستان میں حامد کرزئی جیسے لوگ میسر آگئے ہیں جن کا اقتدار چاہے اپنے محل تک محدود ہو ، بات وہ یوں اچھل اچھل کر کریں گے جیسے آدھی دنیا پر حکومت کرتے ہوں۔ جب اس بات کی تصدیق ہو چکی ہے کہ بلوچستان میں حالات خراب کرنے میں را مصروف عمل ہے اور ہمارے ہی نوجوانوں کو ہمارے خلاف لڑایا جا رہا ہے تو ہمارے حکمرانوں نے ان کے خلاف اب تک کیا اقدام کئے۔ عالمی سطح پر بھارت سے احتجاج کیا نہ مقامی سطح پر علیحدگی پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی کی۔ پھر بلوچستان میں امن و امان قائم کرنا حقیقت میں دیوانے کے خواب کے مترادف ہے۔ بشکریہ روزنامہ پاکستان