ہم ذات کے اوراق پہ بکھری ہوئی شب ہیں
معیار علیحدہ ہیں پہ انسان تو سب ہیں
آسیب زدہ ہے ترے ہونٹوں کی حلاوت
افسردۂ خاطر ترے لہجے کے سبب ہیں
دولت کی ترازو میں بھی ایمان بکا ہے؟
ہم صاحبِ کردار ہیں‘ پروردہ رب ہیں
دیروز کے چہرے کی عبارت بھی ذرا پڑھ
معمار ہیں آئندہ کے، قاتل ترے کب ہیں
سوگند ہمیں صبح کے کھلتے ہوئے در کی
تعزیر لگاؤ کہ ہمیں رہزنِ شب ہیں
ہم دونوں محبت کے سوا جانتے کیا تھے
ایسے تو نہ تھے دوست کہ جس حال میں اب ہیں