اب وہ طوفان ہے نہ وہ شور ہواؤں جیسا
دل کا عالم ہے تیرے بعد خلاؤں جیسا
کاش دنیا میرے احساس کو واپس کر دے
خاموشی کا وہی انداز صداؤں جیسا
پاس رہ کر بھی ہمیشہ وہ بہت دور ملا
اس کا اندازِ تغافل تھا خداؤں جیسا
کتنی شدت سے بہاروں کو تھا احساسِ معال
پھول کھل کر بھی لگا زرد خزاؤں جیسا
کیا قیامت ہے کہ دنیا اسے سردار کہے
جس کا اندازِ سخن بھی ہو گداؤں جیسا
پھر تیری یاد کے موسم نے جگائے محشر
پھر میرے دل میں اٹھا شور ہواؤں جیسا
بارہا خواب میں پا کر مجھے پیاسا محسن
اس کی زلفوں نے کیا رقص گھٹاؤں جیسا
محسن نقوی