بھارت میں دسمبر 2012 کے دہلی ریپ کے واقعے کے بعد ریپ کے قوانین سخت کیے جانے کے باوجود مظفر نگر فسادات میں ریپ کے بیشتر ملزمان ’آزادانہ‘ گھوم رہے ہیں۔ ماہرین اسے پولیس اور سیاسی پارٹیوں کی ناکامی قرار دیتے ہیں، لیکن ریپ کے متاثرین کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو سزا دینا تو دور کی بات ہے، انھیں حکومت کی طرف سے ملنے والا معاوضہ تک نہیں دیا گیا۔
میں نے جن ریپ متاثرین سے ملاقات کی، ان میں سے ایک کی عمر تقریباً 45 برس ہے۔ وہ آٹھ بچوں کی ماں ہیں اور بیوہ ہیں۔ جن لوگوں نے ان کا ریپ کیا ان میں بعض ایسے تھے جن کو انھوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے بڑے ہوتے دیکھا تھا۔ پولیس کو ہر ملزم کا نام، پتہ اور خاندان کا شجرہ بتانے کے باوجود بھی نورجہاں کو انصاف نہیں مل سکا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی کرنے والے اپنے گاؤں میں آرام سے رہ رہے ہیں۔
نورجہاں (فرضی نام) اکیلی خاتون نہیں ہیں جن کے ساتھ اس زيادتی ہوئی۔
ایک اور متاثرہ شبانہ (فرضی نام) نے مجھے بتایا کہ جس وقت فسادات شروع ہوئے انھیں یہ یقین تھا کہ گاؤں میں سبھی لوگ اور خاص طور سے جاٹ برادری کے لوگ انھیں اچھی طرح جانتے ہیں اور وہ انھیں نقصان نہیں پہنچائیں گے، لیکن ان کی جان پہچان کے لڑکوں ہی نے ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی۔
نورجہاں اور شبانہ ان سات خواتین میں شامل ہیں جنھوں نے ملزمان کے خلاف مقدمات درج کرائے ہیں۔
فسادات کے متاثرین، سماجی کارکنان، اور وکلا کی بات پر یقین کریں تو فسادات کے دوران متعدد لڑکیوں کا ریپ ہوا۔ لیکن بیشتر نے اسے راز ہی رکھنا بہتر سمجھا۔ جو خواتین سامنے آئی ہیں ان کو ہمت دلانے میں ان کے گھر والوں کا بہت اہم کردار ہے۔
شبانہ کے خاوند مستقیم کہتے ہیں: ’سب سے پہلے تو ایسا لگا تھا کہ مار دوں یا مر جاؤں۔ لیکن پھر میرے چھوٹے چھوٹے بچوں کا کیا ہوتا۔ میں نے جب لوگوں سے پوچھنا شروع کیا کہ ان کی خواتین کے ساتھ تو ایسا نہیں ہوا تو دھیرے دھیرے معلوم ہوا کہ کئی خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی ہے۔‘
مظفر نگر میں فسادات گذشتہ برس سات ستمبر کو شروع ہوئے تھے اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے معاملے میں پہلی ایف آئی آر کئی ہفتوں کے بعد درج کی گئی۔ ریپ کے سارے معاملات مظفر نگر کے فوگانا گاؤں میں پیش آئے ہیں۔ ان متاثرین نے قریب کے گاؤں کے جوالاکھیڑی میں پناہ لے رکھی ہے۔ اسی گاؤں کے ایک بزرگ اور سابق پردھان حاجی غلام کا کہنا ہے کہ ابھی بھی فوگانا کی کئی لڑکیاں لا پتہ ہیں: ’تین چارلڑکیاں تو چار دن بعد دی انھوں نے۔ تین چار لڑکیوں کا یہی نہیں معلوم کہ وہ ہیں کہاں۔‘
بعض لڑکیاں لاپتہ ہیں اور بعض نے ایف آئی آر درج نہیں کرائی۔ فسادات کے متاثرین کے لیے کام کرنے والے افکار انڈیا فاؤنڈیشن کے سماجی کارکن اکرم اختر اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں: ’سماجی دباؤ بہت ہے کہ ریپ جس کے ساتھ ہوا اس کا کیا ہوگا۔ شادی کا مسئلہ ہے، بے عزتی ہے، گھروالے کیا کہیں گے؟ اور جو خواتین کھل کر سامنے آتی ہیں ان کو اچھا بھی تو نہیں سمجھا جاتا ہے نا ہمارے سماج میں۔‘
ریپ متاثرین کو یہ ہمت دلانے کہ وہ اپنے لیے انصاف کی لڑائی لڑیں، بعض انسانی حقوق کی تنظیموں اور وکلا نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان خواتین کے مقدمات کی پیروی کرنے والی سپریم کورٹ کی سرکردہ وکیل ورندا گرور کا خیال ہے کہ ان خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کا استعمال مسلمانوں کا اعتماد ختم کرنے کے ہتھیار کے طور پر کیا گیا ہے: ’جب مسلمانوں پر حملہ کیا جاتا ہے تو خاص طور سے ان کی خواتین کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہمارے سماج میں یہ سوچ ہے کہ ایک خاتون پوری قوم کی عزت ہے اور اس عزت کو نشانہ بناؤ۔‘
ورندا گرور کی یہ بات اس وقت سمجھ میں آئی جب میں نے جولا گاؤں میں ایک کیمپ کا دورہ کیا اور وہاں کی خواتین سے بات کی۔ نوجوان لڑکیوں کے والدین رات بھر اس لیے نہیں سوتے کہ ان کے جھونپڑی میں کوئی نہ گھس آئے۔ انھوں نے اپنی بچیوں کو سکول بھیجنا بند کر دیا ہے کہ کہیں انھیں راستے میں کچھ نہ ہو جائے۔
فسادات سے متاثرہ علاقے کے نہ صرف خواتین اور جوان بچیاں بلکہ ہر شخص خوف کے سائے میں رہ رہا ہے۔ ایک جمہوری نظام میں جہاں اقلیتوں کو آئین میں برابری کے حق کی ضمانت ہے اور ریپ سے متعلق ایک سخت قانون موجود ہے، وہاں ان خواتین کے لیے انصاف میں اتنی دیری کیوں؟ آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمن کی صدر سیبہاں تاباں کا کہنا ہے کہ پولیس جاٹ برادری کے اثر رسوخ کو سمجھتے ہوئے ان کے خلان جان بوجھ کر کارروائی نہیں کر رہی۔
مظفر نگر کے فسادات میں بھی دیگر فسادات کی طرح پولیس کا کردار مشکوک بتایا گیا ہے۔ فسادات کے دس مہینے بعد بھی 22 ملزمان میں سے صرف کی دو کی گرفتاری وجہ کیا ہے؟ مظفرنگر کے سپرنٹنڈنٹ پولیس آلوک پریی درشی کا کہنا ہے وہ کوشش کر رہے ہیں کہ جلد سے جلد ان معاملات میں گرفتاریاں کی جائیں لیکن بقول ان کے ’بیشتر ملزمان مفرور ہیں۔‘
پولیس کہتی ہے وہ کوشش کر رہی ہے، لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بھارت میں دسمبر 2012 کے ریپ کے واقعے کے بعد ریپ سے متعلق ایک سخت قانون موجود ہے جس کے تحت بعض معاملات میں حال میں ریپ کے ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کی گئی تو وہی کارروائی ان معاملات میں کیوں نہیں؟
ورندا گرور کا کہنا ہے: ’نئے قانون میں انصاف کی بے حد گنجائش ہے، لیکن اس قانون کو نافذ کرنے کے لیے پولیس اور عدلیہ کو اس کا پابند ہونا ضروری ہے لیکن سب سے بڑی بات ہے کہ قانون نافذ کرنے والوں کو اپنے اندر چھپے ہوئے تعصبات کو بھولنا ہوگا۔‘
ماہرین کے مطابق بھارتی پولیس اور انتظامیہ اقلیتوں اور خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کرتی ہے اور خاص طور سے غریب خواتین کے ساتھ۔ تو ایسے میں کیا میڈیا نے اپنی ذمہ داری نبھائی ہے؟ فلم ہدایت کار انوشا رضوی کا کہنا ہے: ’میڈیا کا کردار بے حد کھوکھلا رہا ہے۔ میڈیا صرف چیختا چلاتا ہے، اسے ہر بات میں صرف غصہ آتا ہے۔ میڈیا کا کردار بالکل بھی مثبت نہیں ہے۔‘
مظفر نگر فسادات کے بارے میں میڈیا نے بہت زیادہ نہیں تو تھوڑی بات ضرور کی ہے، لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ متاثرین کو انصاف دلانے اور خاص طور سے ریپ کے متاثرین کو انصاف دلانے ميں سیاسی پارٹیاں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔
لیکن خود ورندا گرور نے مجھ سے بات چیت کے دوران کہا کہ سیاسی پارٹیوں نے مظفرنگر فسادات کے متاثرین کو ووٹ بینک کی طرح استعمال کیا ہے۔ میں نے جن ریپ متاثرین سے ملاقات کی انھوں نے سب سے زیادہ ووٹ دیے، اور جب میں نے ان سے پوچھا کہ انھوں نے کس امید کے ساتھ ووٹ دیا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ کوئی تو ہمیں انصاف دلائے گا۔
ریپ متاثرین کو یہ نہیں معلوم کہ کب انصاف ملے گا، لیکن فی الحال تو وہ دس مہینوں سے ان پانچ لاکھ روپوں کی ہی آس لگائے ہیں جو حکومت نے انہیں معاوضے کے طور پر دینے کا وعدہ کیا تھا۔
Tags:
News