بی بی سی اردو
گلی میں ایک ہی مکان تھا جہاں پولیس اور دیگر تفتیشی اہلکاروں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری تھا
متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی گرفتاری پر میڈیا میں قیاس آرائیوں اور اندازوں پر مبنی خبریں، تبصرے اور تجزیے جاری تھے جب میں نے شمال مغربی لندن میں واقع ان کی رہائش گاہ کا رخ کیا۔
مل ہل کے جس متمول علاقے میں الطاف حسین کا مکان ہے وہاں عام آدمی کے لیے رہائش اختیار کرنا صرف ایک خواب ہی ہو سکتا ہے۔
ایبے ویو سٹریٹ میں داخل ہوتے ہی ان کی رہائش گاہ تلاش کرنے میں ذرا بھی دقت نہ ہوئی کیونکہ اس گلی میں ایک ہی مکان تھا جہاں پولیس اور دیگر تفتیشی اہلکاروں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری تھا۔
پولیس کے ساتھ ساتھ میڈیا بھی تب تک وہاں پہنچ چکا تھا اور سکاٹ لینڈ یارڈ کے ان تفتیشی افسران کی عکس بندی اور فلم بندی میں مصروف تھا جو اس مکان کے باہر کھڑی ویگن میں سربمہر ڈبوں میں اکٹھے کیے گئے شواہد رکھ رہے تھے۔
پاکستان کی ایک بڑی جماعت کے قائد کی گرفتاری کی خبر نے ہزاروں میل دور ان کے آبائی شہر کی گلیوں کو تو خوف سے سنسنان کر دیا لیکن خود ان کے گھر کی گلی کے مکین ان سب معاملات سے لاتعلق دکھائی دیے۔
ایم کیو ایم کے ترجمان سے رابطے کی کوشش کی تو ابتدا میں لائن نہ مل سکی جس پر یہ خیال آیا کہ کیوں نہ الطاف حسین کے ہمسایوں سے ہی کچھ سن گن لی جائے۔
الطاف حسین کی رہائش گاہ سے شواہد جمع کرنے کا سلسلہ جو منگل کی صبح شروع ہوا تھا وقفے وقفے سے شام گئے تک جاری رہا
ساتھ والے گھر کے دروازے پر دستک دینے پر ایک نوجوان بڑے سے کتے کو پکڑے باہر نکلا اور میرے سوال پر کچھ یوں گویا ہوا: ’جی بس اتنا بتا سکتا ہوں کہ اچھے ہمسائے ہیں۔‘
ابھی یہ گفتگو جاری تھی کہ ایم کیو ایم کے ترجمان مصطفیٰ عزیز آبادی سے آخر کار بات ہو گئی جنھوں نے الطاف حسین کے بیمار ہونے اور تفتیش کے لیے سدرک پولیس سٹیشن لے جائے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے اپنے قائد کے لیے نیک خواہشات کی دعا بھی کر ڈالی۔
رہائش گاہ سے شواہد جمع کرنے کا سلسلہ جو منگل کی صبح شروع ہوا تھا وقفے وقفے سے شام گئے تک جاری رہا اور اس دوران پولیس نے اس پتے پر بذریعہ کوریئر آنے والا ایک بڑا پارسل بھی یہ کہہ کر وصول کرنے سے انکار کر دیا کہ گھر کے مکین آج موجود نہیں ہیں۔
اب الطاف حسین تھانے سے ہسپتال پہنچ چکے ہیں جہاں بدھ کی صبح ان کے پولیس کی تفتیش کا سامنا کرنے کے قابل ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ ہوگا۔
برطانوی قوانین کے مطابق پولیس 36 گھنٹے تک انہیں زیر حراست رکھ سکتی ہے۔
اس دوران جہاں کراچی اور حیدر آباد میں بے چینی برقرار رہے گی اور میڈیا اگلی خبر کے انتظار میں تجزیوں اور اندازوں سے بھرپور پروگرام پیش کرتا رہے گا وہیں میرے ذہن میں یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ اس پرسکون علاقے کا یہ مکین اب کب سکون کی نیند سو پائے گا؟