ما ما ہم شرمندہ ہیں!...قلم کمان ۔۔۔۔۔حامد میر
ماما قدیر نے کوئی سڑک بلاک نہیں کی۔ اس نے کوئی دھرنا نہیں بلکہ اس نے 70سال کی عمر میں وہ کر دکھایا ہے جس کے بارے میں ہمارا کوئی بڑے سے بڑا لیڈر سوچ بھی نہیں سکتا۔ ماما قدیر نے 27اکتوبر کو کوئٹہ سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے حق میں لانگ مارچ شروع کیا۔ اس نے 27دن میں 730کلو میٹر کا فاصلہ صرف اپنے بوڑھے قدموں پر طے کیا اور 23نومبر کو کراچی پہنچ کر دم لیا۔ ماما قدیر کے ساتھ اس لانگ مارچ میں 12عورتیں اور 8مرد شامل تھے۔ ان میں صاحب خان عمرانی کی بوڑھی والدہ، محمد رمضان بلوچ کا دس سالہ بیٹا علی حیدر اور اس کی دو بیٹیاں، ذاکر مجید بلوچ کی بہن فرزانہ، ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سیمی، سمیع مینگل ، عطاء اللہ بلوچ، کبیر بلوچ، مشتاق دودھیلی، ڈاکٹر اکبر مری، سفر خان مری اور دیگر لاپتہ افراد کے رشتہ دار بھی شامل تھے۔ 23دن تک کوئٹہ سے کراچی تک پیدل سفر کرنے والے اس مختصر قافلے کو حکومتی اداروں کی طرف سے دلاسوں اور تسلیوں کی بجائے دھمکیاں دی گئیں۔ جب ماما قدیر خضدار کے قریب پہنچا تو اس کو پیغام ملا کہ یہاں اپنا سفر ختم کر دو ورنہ انجام اچھا نہ ہو گا، تم ایک بیٹے کی لاش وصول کر چکے ہو دوسرے بیٹے کی موت کا باعث مت بنو۔ ماما قدیر نے چلتے چلتے اپنی ہم سفر بیٹیوں، بہنوں اور بیٹوں کو بتایا کہ دھمکی آئی ہے آگے مت بڑھو، میں تو واپس نہیں جائوں گا لیکن اگر کوئی واپس جانا چاہے تو چلا جائے۔