#Taliban devided - طالبان منقسم؟ پنجابی طالبان کو پیشکش منظور، تحریکِ طالبان غور کرے گی
بی بی سی اردو
حکومتِ پاکستان کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے چار رکنی کمیٹی بنانے کے اعلان کے بعد ایک طرف کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے کہا ہے کہ اس کی شوریٰ سنجیدگی سے وزیرِ اعظم کی مذاکرات کی پیشکش کا جائزہ لے گی تو دوسری جانب پنجابی طالبان نے اس پیشکش کا خیر مقدم کیا ہے۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان شاہد اللہ شاہد نے ایک بیان میں کہا کہ تحریکِ طالبان حکومت کی طرف سے مذاکراتی ٹیم کے اعلان کا شوریٰ کے اجلاس میں سنجیدگی سے جائزہ لے گی۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اس پروپیگنڈے‘ میں کوئی حقیقت نہیں ہے کہ تحریک طالبان کے امیر فضل اللہ حکومتِ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے حق میں نہیں ہیں۔
’تحریک طالبان کے تمام حلقے امیر کی امارت و قیادت میں متحد اور یکجا ہیں اور تمام امور میں ان کے فیصلوں کی مکمل اطاعت کرتے ہیں۔‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی نے حکومت کے اعلان کوسنجیدگی سے دیکھ رہی ہے۔ ’تحریک طالبان کی مرکزی شوریٰ حکومت کے فیصلے کا باریک بینی سے جائزہ لے کر چند دنوں میں اپنے موقف سے آگاہ کرے گی۔‘
دوسری جانب تحریک طالبان پنجاب کے سربراہ مولانا عصمت اللہ معاویہ نے وزیر اعظم کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کا خیر مقدم کرتے ہوئے ان کے نامزد سرکاری مذاکرات کاروں پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
نامعلوم مقام سے بی بی سی کے نامہ نگار آصف فاروقی سے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے عصمت اللہ معاویہ نے کہا کہ ان کی تنظیم ان مذاکرات میں شامل ہو گی بلکہ دیگر گروپوں کے ساتھ بھی مشاورت کر کے انہیں بھی اس عمل کا حصہ بننے میں مدد دے گی۔
تحریک طالبان پنجاب اور جنود الحفصہ کے امیر نے اپنی تنظیم کی جانب سے مذاکرات شروع ہوتے ہی ملک میں دہشت گرد کارروائیاں ختم کرنے کا اعلان کیا:
’جہاں تک تحریک طالبان پنجاب اور جنود الحفصہ کا تعلق ہے تو میں یہ یقین دلاتا ہوں کہ مذاکرات شروع ہوتے ہیں ہماری کارروائیاں رک جائیں گی۔ اگر حکومت کچھ نہیں کرے گی تو ردعمل بھی نہیں ہو گا۔‘
تاہم انھوں نے کہا کہ وہ یہ بیان صرف اپنی تنظیم کی نمائندگی کرتے ہوئے جاری کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’تحریک طالبان پاکستان اور مولانا فضل اللہ کا ردعمل بھی مجھ سے مختلف نہیں ہوگا لیکن ہم صرف اپنے قول و فعل کے ذمے دار ہیں۔‘
’نواز شریف نے آج مذاکرات کا اعلان کر کے پاکستان کو آگ اور خون کے کھیل میں دھکیلنے والی قوتوں کے ہاتھوں تباہ ہونے سے بچا لیا ہے۔‘
یاد رہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے عہدہ سنبھالنے کے بعد اگست میں قوم سے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ’مصالحت اور افہام و تفہیم کی میری یہ پیشکش صرف سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کے لیے نہیں بلکہ میں ایک قدم آگے بڑھ کر ان عناصر کو بھی بات چیت کی دعوت دیتا ہوں جو بدقسمتی سے انتہا پسندی کی راہ اپنا چکے ہیں۔‘
اس کے جواب میں تحریک طالبان پنجاب نے وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کا خیرم مقدم کیا تھا۔
تاہم واضح رہے کہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے عصمت اللہ معاویہ کی جانب سےمذاکرات کی دعوت کا خیر مقدم پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے کوئی بھی بیان صرف وہی (شاہد اللہ شاہد) جاری کرنے کے مجاز ہیں۔
واضح رہے کہ مذاکرات کی دعوت کا خیر مقدم کرتے ہوئے عصمت اللہ معاویہ نے کہا تھا کہ ’یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں متعدد گروہ جہاد میں مصروف ہیں اور ان کی کوئی ایک مرکزی تنظیم نہیں ہے۔ لیکن تقریباً تمام گروہوں کی مرکزی قیادت قبائلی علاقوں میں موجود ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ بہت قریبی رابطے میں ہے۔ ایسے میں جب مذاکرات ہوں گے اور اس کے نتیجے میں اگر کوئی معاہدہ ہوتا ہے تو اس کی پابندی ہر گروہ کرے گا۔‘
تحریک طالبان پنجاب نے مثال دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا گروہ تنظیمی لحاظ سے حکیم اللہ محسود کی تحریک طالبان پاکستان کے زیرِ اثر نہیں ہے لیکن وہ حکیم اللہ کے مشوروں کے پابند ہیں۔
Tags:
News