ہمارے ملک میں سیاسی رہنماؤں کی مقبولیت جانچنے کا ایک پیمانہ جلسے جلوس ہیں جو رہنما یا سیاسی جماعت جتنا بڑا جلسہ کرتی ہے اسے اتنی ہی مقبول جماعت سمجھا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں سیاسی رہنماؤں اور جماعتوں کی مقبولیت مختلف سطحوں پر ووٹنگ کے ذریعے معلوم کی جاتی ہے ان ملکوں میں نہ لاکھوں افراد پر مشتمل جلسے ہوتے ہیں نہ جلوس نہ ریلیاں نہ ڈھول تاشے بلکہ کارکردگی کی بنیاد پر اور منشور کی بنیاد پر مہذبانہ طریقوں سے علاقائی عوام سے رائے حاصل کی جاتی ہے ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ملکوں کے عوام کسی بھی رہنما یا جماعت کو اس کے منشور، اس کی کارکردگی کے حوالے سے ہی پرکھتے ہیں، اس نظام کی وجہ سے مرکزی قیادت نچلی سطح سے کام کی بنیاد پر اوپر آتی چلی جاتی ہے، دولت ٹارزن کی طرح ذاتی اور خاندانی وجاہت کی ٹہنیوں سے لٹک کر عوام کے سروں پر مسلط نہیں ہوتی۔
ہمارے ملک میں سیاسی قیادتوں کی مقبولیت کے جانچنے کے جو پیمانے رائج ہیں وہ غیر حقیقت پسندانہ ہیں۔ ہر جماعت کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بڑے بڑے جلسے کر کے بڑے بڑے جلوس اور ریلیاں نکال کر عوام میں اپنی مقبولیت ثابت کرے۔ اس حوالے سے ہماری سیاسی تاریخ میں صرف دو جماعتیں ایسی رہی ہیں جنھیں صحیح معنوں میں عوام میں مقبولیت حاصل رہی، ایک پیپلز پارٹی دوسری ایم کیو ایم۔
پیپلز پارٹی کے قیام سے پہلے عوام کے ایسے ہجوم جمع کرنے کا کوئی رواج نہ تھا، البتہ ایوب خان کے دور میں جب کنونشن لیگ بنی اور وڈیرے اس جماعت کے سرپرست بن گئے تو عوام کو بسوں ویگنوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح بھرکر جلسہ گاہوں وغیرہ میں لانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ بنیادی جمہوریت کے ممبران بھی یہ خدمات انجام دیتے تھے۔ ایوب خان سے پہلے چونکہ ہماری سیاست محلاتی سازشوں کے ذریعے چلتی تھی، اس لیے اس سیاست میں نہ عوام کے ہجوم کی ضرورت پڑتی تھی نہ عوام کا اس سیاست میں کوئی کردار ہوتا تھا۔ بھٹو کی سیاست اور شخصیت کا یہ عجیب سحر تھا کہ بھٹو ایوب خان کو ڈیڈی کہتے تھے اور اس کی حکومت میں شامل بھی رہے تھے بلکہ وزیر خارجہ جیسے اہم عہدے پر بھی فائز رہے تھے لیکن جب انھوں نے ایوب حکومت سے نکل کر اپنی پارٹی بنالی تو دیکھتے ہی دیکھتے شہرت کی ایسی بلندیوں پر پہنچ گئے کہ شہرت اور مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ ہم یہاں ان کی مقبولیت کی وجوہات پر بات اس لیے نہیں کریں گے کہ یہ ایک طویل داستان ہے اور اس کالم میں ہمارا اصلاً موضوع چونکہ سیاسی رہنماؤں کی مصنوعی مقبولیت ہے لہٰذا اسی حوالے سے ہم سیاست جاریہ پر نظر ڈالیں گے۔ یہاں پر ضمناً ہم قائد کی بہن فاطمہ جناح کا حوالہ البتہ دیں گے جو ایوب خان کے مقابلے میں الیکشن لڑ رہی تھیں ان کے جلسوں جلوسوں میں لوگوں کی بڑی تعداد از خود آتی تھی جب کہ ایوب خان کے جلسوں میں زبردستی لائی جاتی تھی۔
2013ء کے عام انتخابات کو لے لیں اس انتخابی مہم میں جلسوں جلوسوں کا ایسا مقابلہ ہوتا رہا جس کی پاکستان کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ قومی سطح پر یہ مقابلہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان تھا۔ ایک طرف عمران خان کی غیر آزمودہ اور الزامات سے بچی ہوئی شخصیت تھی لیکن عمران خان نے اس سنہری موقعے کو اپنی غیر عاقلانہ، غیر منطقی اتحادوں اور پالیسیوں سے ضایع کر دیا۔ اصل میں مقبولیت جانچنے کا یہ پیمانے جلسے جلوس اب اس لیے بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں کہ ہر بندہ بشر ان بڑے جلسوں کی حقیقت سے واقف ہو گیا ہے۔ بڑے جلسے اب کوئی بڑے اسرار نہیں رہے ہر شخص جانتا ہے کہ بڑے جلسے کس طرح بڑے بنتے ہیں یا بنائے جاتے ہیں۔
دیہی علاقوں میں زرعی معیشت سے جڑے ہوئے لاکھوں ہاریوں کسانوں کو زبردستی گاڑیوں میں بٹھا کر سیاسی وڈیروں کے جلسوں میں پہنچایا جاتا ہے یہ ایک کلاسیکی طریقہ ہے اور عام طور پر وڈیرہ شاہی طبقہ یہ طریقہ نہ صرف اپنی انتخابی مم کے دوران اپنی مقبولیت ثابت کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے بلکہ اپنے خاندان اپنے دوست احباب اپنی پارٹی کے نامزد امیدواروں کے جلسوں کو کامیاب بنانے کے لیے بھی استعمال کرتا ہے۔ سرمایہ دار اور صنعت کار طبقہ بھی بھی اپنی پارٹی میں شامل جاگیرداروں کی رعیت کو زبردستی اپنے جلسوں میں گھسیٹ کر بڑے جلسے کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ جلسوں میں عوام کو لانے کے لیے اب دنیا کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنا تو عام بات ہو گئی ہے۔ اول ٹرانسپورٹ کی فراہمی، دوسرے کھانے کا انتظام۔ مئی 2013ء کی انتخابی مہم کے دوران کھانوں کے جو نظارے ٹی وی چینلوں پر پیش کیے گئے ان سے جہاں جلسوں میں شریک ہونے والوں کے ڈسپلن کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ جلسوں کی انتظامیہ کی اعلیٰ کارکردگی بھی ظاہر ہوتی ہے۔ بعض بڑے بڑے جلسوں میں جلسوں کے اختتام پر عوام جس طرح کرسیاں اٹھا کر لے گئے اس سے جلسوں میں شریک عوام کی ترجیحات اور سیاسی رہنماؤں سے ان کی عقیدت کا اندازہ ہوتا ہے۔ پنجاب میں میاں برادران اور عمران خان کے جلسوں کا مشترکہ ٹرینڈ یہی رہا۔
بڑے جلسوں کی کامیابی کے لیے ایک اور طریقہ بھی استعمال ہوتا ہے اور وہ ہے دیہاڑی پر عوام کو جلسوں میں لانا ان دیہاڑی دار عوام کو نعرے لگانے، تالیاں بجانے کے حوالے سے انھیں لانے والے ٹھیکیدار بریف کرتے ہیں بلکہ چند خاص کارکنان کو نعرے لگانے کی ذمے داری سونپی جاتی ہے جس کی اتباع دیہاڑی دار کرتے ہیں۔ بڑے جلسے کرنے اور جلوس اور ریلیاں نکالنے میں وہ منظم جماعتیں بھی زیادہ کامیاب رہتی ہیں جن کی تنظیمیں گراس روٹ تک موجود رہتی ہیں۔ ایسی منظم جماعتوں کے لیے بڑے جلسے کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے بس ٹرانسپورٹ فراہم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب لوگ جلسوں میں خود پیدل چل کر یا اپنی ٹرانسپورٹ کے ذریعے شریک ہوتے تھے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ پارٹیاں علاقوں اور محلوں میں بسیں ویگنیں تو پہنچا دیتی ہیں لیکن ’’سواریوں‘‘ کے انتظار میں گھنٹوں کھڑی رہنے کے باوجود ’’سواریاں‘‘ دور دور تک نظر نہیں آتیں لوگوں کو زبردستی بسوں میں ڈال کر لانا پڑتا ہے۔ بلکہ اکثر یہ ہوتا ہے کہ جلسوں کے دن عوام گھروں سے دور یا تو عزیزوں کے پاس چلے جاتے ہیں یا پارکوں یا سینما گھروں کا رخ کر کے اپنے آپ کو جلسوں سے محفوظ کر لیتے ہیں۔
کامیاب جلسوں کے انعقاد میں وہ جماعتیں بھی بہت کامیاب رہتی ہیں جن کے پاس نظریاتی کارکن ہوتے ہیں خاص طور پر مذہبی جماعتوں کے جلسوں کی کامیابی ان نظریاتی کارکنوں کی مرہون منت ہوتی ہے جو ہفتوں پہلے سے عوام کو ان جلسوں میں شرکت کر کے ثواب دارین حاصل کرنے کی تلقین اور ترغیب فراہم کرتے ہیں۔ ان جماعتوں سے نظریاتی وابستگی رکھنے والے بھی ان جماعتوں کے جلسوں جلوسوں کی کامیابی میں بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہوشیار سیاست دان ذات برادری کو بھی متحرک کر کے بڑے جلسے کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں لیکن ہر صورت میں ٹرانسپورٹ کی فراہمی اور جلسے طویل ہوں تو کھانے پینے کی فراہمی لازمی ہوتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس قسم کے بڑے جلسوں سے سیاسی رہنماؤں اور سیاسی جماعتوں کی مقبولیت طے کی جا سکتی ہے؟
مجھے یاد ہے 1977ء میں جب بھٹو کے خلاف 9 ستاروں کی تحریک چلی تو پاکستان میں ڈالروں کا ریلا آ گیا تھا اور ڈالروں کے اس ریلے کی مدد سے بڑی بڑی ریلیاں نکالی جاتی تھیں۔ مضافاتی بستیوں سے بسوں میں بھر کر جن خواتین و حضرات کو لایا جاتا تھا انھیں گھنٹوں کے حساب سے اجرت دی جاتی تھی اور جگہ جگہ ڈالر بانٹنے والوں کے دفاتر موجود تھے۔ ان گنہگار آنکھوں نے ان دفاتر سے ہر روز طلبا تنظیموں ٹریڈ یونینوں پیشہ ورانہ جماعتوں اور سیاسی کارکنوں کو بڑی نوٹوں کی گڈیاں لے جاتے دیکھا ہے۔ ان کامیاب جلسوں اور جلوسوں کا بھٹو کی حکومت ختم کرنے میں سب سے اہم کردار رہا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان اجرتی جلسوں ان زبردستی اٹھا کر لائے ہوئے لوگوں سے کسی سیاسی رہنما کی مقبولیت جانچنا مناسب اور درست ہے؟ پاکستان کی آبادی 18 کروڑ سے زیادہ ہے کسی بڑے اور کامیاب ترین جلسے کے شرکا کی تعداد بھی لاکھ دو لاکھ سے زیادہ نہیں ہوتی کیا اٹھارہ کروڑ کی آبادی میں سے لاکھ دو لاکھ عوام کو راضی خوشی یا بالجبر سے لا کر بڑے جلسے کرنے سے کسی سیاسی رہنما یا جماعت کی مقبولیت کو ناپا جا سکتا ہے؟ عوام آئیں گے لاکھوں کی تعداد میں آئیں گے اپنے پیروں پر چل کر آئیں گے لیکن کیا ایسا کوئی مخلص اور محب عوامی رہنما یا جماعت ملک میں موجود ہے جو عوام کو اپنے جلسوں میں از خود آنے، خوشی اور عقیدت سے آنے پر مجبور کر دے؟ مصنوعی مقبولیت یہ کام ہرگز نہیں کر سکتی نہ کسی بناسپتی قیادت میں ایسی کشش ہو سکتی ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس