خواجہ سعد رفیق نے نجانے کس کا غصہ مشرف پر نکالا ہے۔ جبکہ اس کے عظیم
شہید والد خواجہ رفیق کو بھٹو کی حکومت میں دن دیہاڑے گولی ماری گئی تھی۔ سابق آرمی چیف اور صدر پاکستان کو للکارا۔ تم عدالت میں کیوں نہیں جاتے ہو۔ فوجی ہسپتال میں چھپ کے بیٹھے ہو۔ کمانڈو بنے پھرتے تھے۔ اب مرد بنو اور عدالت میں جائو۔ سیاستدان عدالتوں کو میدان جنگ کی طرح سمجھتے ہیں۔ جنگ میں سب جائز ہے مگر یہ صرف صدر زرداری کے لئے جائز ہے۔ اس کے ساتھ محبت بھی ہے۔ ہم محبت کو بھی مقابلہ سمجھتے ہیں۔ یہ عجیب مقابلہ ہے۔ اس میں کوئی ہارتا نہیں ہے۔ دل ہارتا ہے اور جان سے ہارتا ہے۔ کوئی دل و جان سے ہارتا ہے۔ خواجہ صاحب کے طعنے کے بعد مشرف عدالت میں پیش ہو گئے مگر کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ کوئی فیصلہ نہ ہوا۔ فرد جرم لگی تو گرفتاری بھی ہوتی، ہتھ کڑی بھی لگتی۔ مگر ہمارے وزراء تو مشرف کے بہانے سے فوج اور دفاعی اداروں کے خلاف بات کر رہے تھے۔ پاک فوج پچھلے دس بارہ برسوں سے جمہوریت کے لئے سیاستدانوں سے زیادہ حق میں ہے۔ مشرف کمانڈو تھے تو اب کمانڈوز پر تنقید کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
شہید والد خواجہ رفیق کو بھٹو کی حکومت میں دن دیہاڑے گولی ماری گئی تھی۔ سابق آرمی چیف اور صدر پاکستان کو للکارا۔ تم عدالت میں کیوں نہیں جاتے ہو۔ فوجی ہسپتال میں چھپ کے بیٹھے ہو۔ کمانڈو بنے پھرتے تھے۔ اب مرد بنو اور عدالت میں جائو۔ سیاستدان عدالتوں کو میدان جنگ کی طرح سمجھتے ہیں۔ جنگ میں سب جائز ہے مگر یہ صرف صدر زرداری کے لئے جائز ہے۔ اس کے ساتھ محبت بھی ہے۔ ہم محبت کو بھی مقابلہ سمجھتے ہیں۔ یہ عجیب مقابلہ ہے۔ اس میں کوئی ہارتا نہیں ہے۔ دل ہارتا ہے اور جان سے ہارتا ہے۔ کوئی دل و جان سے ہارتا ہے۔ خواجہ صاحب کے طعنے کے بعد مشرف عدالت میں پیش ہو گئے مگر کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ کوئی فیصلہ نہ ہوا۔ فرد جرم لگی تو گرفتاری بھی ہوتی، ہتھ کڑی بھی لگتی۔ مگر ہمارے وزراء تو مشرف کے بہانے سے فوج اور دفاعی اداروں کے خلاف بات کر رہے تھے۔ پاک فوج پچھلے دس بارہ برسوں سے جمہوریت کے لئے سیاستدانوں سے زیادہ حق میں ہے۔ مشرف کمانڈو تھے تو اب کمانڈوز پر تنقید کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
مجبوراً جنرل راحیل شریف کو جوانوں اور افسروں کے جذبات دیکھ کر کہنا پڑا کہ ہم فوج اور فوجی اداروں کے وقار کا تحفظ کریں گے۔ اس کے بعد ایک خوف زدگی سیاستدانوں کے وجود میں سرسرانے لگی۔ آخر کیا ضرورت ہے ’’آ بیل مجھے مار‘‘ ایک آدمی نے یہ محاورہ یوں پڑھا۔ ’’آ بیل میں تجھے ماروں‘‘
اب تو مشرف باقاعدہ ملزم ہے ’’غداری‘‘ کے مقدمے کا سامنا کر رہا ہے مگر جس طرح اسلام آباد سے انہیں کراچی لایا گیا اور یہ منظر تمام ٹی وی چینلز پر دکھایا گیا برادرم خواجہ سعد رفیق نے بھی دیکھا ہو گا۔ برادرم رئوف طاہر نے تو ضرور دیکھا ہو گا۔ وہ بتائے کہ مرد کون ہے اور مرد کا بچہ کون ہے؟ مشرف کی سواری بلکہ شہسواری ان کے عالیشان گھر سے نکلی کہ اتنا پروٹوکول تو حاضر سروس صدر پاکستان اور آرمی چیف کو نہیں ملتا۔ صدر ممنون حسین تو تصور نہیں کر سکتے۔ وزیراعظم پاکستان نواز شریف بھی اندازہ نہیں کر سکتے البتہ ایک سابق صدر زرداری کو اتنا پروٹوکول اور سکیورٹی سندھ میں ملتی ہے۔ اب وہ بلاول ہائوس لاہور آئیں تو یہاں بھی اتنا ہی پروٹوکول اور سکیورٹی ملے گی۔ بلاول کو بھی ملے گی۔ حمزہ شہباز بھی ایسا سوچ نہیں سکتا۔ وہ سندھ جائے تو کیا اسے بھی ایسا پروٹوکول ملے گا؟
مشرف کے پروٹوکول اور سکیورٹی کے لئے تاریخ بن گئی ہے۔ کیونکہ پاکستان پولیس سٹیٹ تھی اور ہے مگر اب یہ سکیورٹی سٹیٹ ہے۔ پروٹوکول سٹیٹ ہے۔
آدھے کراچی کو مفلوج کر دیا گیا۔ مشرف کے گھر کو جانے والے راستے بند کر دئیے گئے۔ حیرت ہے کہ اس دوران حامد میر پر حملہ کرنے والے کہاں سے آئے اور کہاں گئے۔ شکر ہے وہ ’’اناڑی‘‘ تھے۔ حامد میر بچ گئے اللہ انہیں بچائے رکھے۔ اپنے دوستوں سے بھی بچائے۔ وہ پاکستان دشمنوں میں پھنس گیا ہے مگر وہ پھنسا رہنا چاہتا ہے۔ کچھ تو اس اینکر پرسن کی سکیورٹی ہوتی مگر اسے سکیورٹی کی ضرورت نہ تھی۔ اس کے منصوبے کچھ اور تھے؟ اسلام آباد میں خواجہ سعد رفیق اپنے رفقا سے کہہ سکتے تھے کہ ایک ’’غدار‘‘ کے لئے اتنا پکھنڈ کیا ہے مگر ان کے اپنے دماغ میں گھمنڈ کیا ہے۔ اگر خواجہ صاحب سے کہا جاتا کہ اسلام آباد ائرپورٹ پر مشرف کو آپ نے رخصت کرنا ہے تو وہ اور خواجہ آصف موجود ہوتے۔ ایسی باتیں ہمارے دوست کیوں کرتے ہیں کہ ہمیں شرم آتی ہے۔ افسوس کہ انہیں رئوف طاہر بھی نہیں سمجھاتے۔
میں خواجہ سعد رفیق کو مرد کا بچہ سمجھتا ہوں وہ دلیر آدمی ہے۔ مگر دوسروں کو بزدل کہنے والے بہادری کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ اب اپنے بیان کی سو سو وضاحتیں ہو رہی ہیں؟ خواجہ صفدر کہتے ہیں کہ پچھلے برسوں کی میری تقریر ٹی وی چینل پر چلا دی گئی۔ اس تقریر پر تب کوئی ایکشن نہیں ہوا تھا تو اب کیوں ہو گا مگر خواہ مخواہ خوفزدہ ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ اب ایک مخصوص میڈیا گروپ اور ہمارے وزراء پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ ہم افواج پاکستان کی عزت کرتے ہیں۔ یہ سرحدوں اور نظریاتی سرحدوں کے محافظ ہیں۔ خواجہ آصف پارلیمنٹ کے وقار کے تحفظ کی بات کرتے ہیں اور خود کہتے ہیں کہ سیاستدان کبھی سیاسی غیرت کا مظاہرہ نہیں کرتے۔
پرویز الٰہی کا نام شہید بی بی نے لیا تھا اور بی بی کی شہادت کا صلہ پانے والے صدر زرداری نے چودھری صاحب کو ڈپٹی وزیراعظم بنا دیا۔ جرنیلوں کے وزیر اعلیٰ سارے سیاستدان تھے تو دس بار باوردی مشرف کو صدر منتخب کرانے والے کو صدر زرداری کی حکومت میں شریک کار دیکھ کر مجھے خیال آتا ہے کہ مشرف کے دل کے قریب امیر مقام کو گورنر خیبر پختون خوا کیوں نہ بنایا گیا۔ یہ میری پیش گوئی ہے کہ وہ نواز حکومت میں گورنر بنے گا اور مشرف کی دعوت کرے گا۔
شیر کے بچے یعنی مرد کے بچے کی شادی پر ایک چوہا بھی دم لہرا لہرا کر اٹھکیلیاں کر رہا تھا۔ کسی نے پوچھا کہ تم کہاں؟ اس نے کہا کہ شادی سے پہلے بھی شیر تھا۔ ایک جملہ خوب یاد آیا ہے جب مشرف سپیشل جہاز میں روانہ ہو رہے تھے کہ یہ سپیشل طیارہ ہے یا سپیشل تیاری ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی یعنی ’’صدر‘‘ زرداری کی حکومت ہے۔ وہاں مشرف کے لئے اتنا اہتمام کیا گیاہے۔ مشرف کو گارڈ آف آنر بھی جیالوں نے دیا تھا۔
آصفہ بھٹو زرداری کہتی ہے کہ مشرف کا مقام جیل ہے تو پھر وہ اپنے والد سے کہے اور سندھ حکومت میں جو پذیرائی مشرف کو ملی ہے اسے روک لیتی۔ وہاں رینجرز تھے پولیس بھی تھی۔ ڈی سی وغیرہ سب تھے۔ یہ سندھ حکومت کے لوگ ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے پوچھا کہ میں ائرپورٹ پر مشرف کے استقبال کے لئے جائوں۔ اس سے احتیاط کرنے کو کہا تو شاہ جی بولے دیکھنا مروا نہ دینا۔ نثار کھوڑو نے بھی آصفہ کے بعد یہی بات کی ہے۔ وہ سندھ حکومت کے وزیر ہیں۔ وہ کیسے وزیر شذیر ہیں۔ روک لیتے اس ساری استقبالی کارروائی کو
گلیاں ہو جان سنجیاں تے وچ مرزا یار پھرے
آج کل مرزا یار تو صرف مشرف ہے۔ نواز شریف اب ضد چھوڑیں ’’صدر‘‘ اور اپنے خواجہ صاحبان کو ساتھ لے کے مشرف کے پاس چلے جائیں اور بات ختم پیسہ ہضم۔ سندھی وزیر منظور وسان کے خواب کی تعبیر خورشید شاہ نے بیان کر دی ہے کہ اگلے کچھ دنوں میں مشرف باہر چلے جائیں گے اور الزام سندھ حکومت پر آئے گا۔ کوشش ہو رہی ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کی طرح وفاقی اور صوبائی حکومت کی مفاہمت سے کام پورا ہو جائے۔ بشکریہ نوائے وقت