دریا کو کس کے ہجر نے پامال کردیا؟
پھر چاند رات میں اٹھی دیوانگی کی لہر
پتھر تراشتے تھے تری صورتوں کے ہم
اور سر میں جاگتی تھی تری بندگی کی لہر
پھر ہجر زندگی میں قرینے سے آگیا
مُسکان میں دبی رہی افسردگی کی لہر
کچھ عشق میری فہم سے آگے گذر گیا
کچھ خاک میں بکھرتی گئی زندگی کی لہر
یہ زندگی دھنک سی کھلی، اور بجھ گئی
پیچھے تھی ایک مٹتی ہوئی رخصتی کی لہر
بستر لگا گئے ہیں اندھیرے مکان میں
شاید سحر، یہیں ہو کہیں روشنی کی لہر